ورلڈ کپ کے یادگار سیمی فائنل مقابلے

Last Updated On 23 June,2019 05:31 pm

لاہور: (دنیا میگزین) سب سے پہلا کرکٹ ورلڈ کپ 1975ء میں انگلینڈ میں منعقد ہوا جسے ویسٹ انڈیز نے جیتا۔ 1975ء سے لے کر 2015ء تک کئی ایسے سیمی فائنل میچ کھیلے گئے جو ناقابل فراموش ہیں۔

کسی بھی ٹیم کا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا بذات خود کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ہم اپنے قارئین کو ورلڈ کپ کے ان شاندار سیمی فائنل مقابلوں کے بارے میں بتائیں گے جو کرکٹ کی تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے درج ہو چکے ہیں۔

پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز (1979)

یہ 1979ء کا دوسرا سیمی فائنل مقابلہ تھا اور اس میں دونوں ٹیموں نے زبردست کھیل پیش کیا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم عروج پر تھی لیکن پاکستانی ٹیم نے بھی ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ ویسٹ انڈیز کے کرکٹر بھی پاکستانی ٹیم کو اپنا سب سے زیادہ مضبوط حریف سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں 60اوورز کا میچ ہوتا تھا اور کرکٹ اتنی تیز نہیں تھی جتنی آج کل کھیلی جا رہی ہے۔ اس دور میں 60اوورز میں 250 رنز بنانا اچھا خاصا سکور سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان اس سے پہلے 1975میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک جیتا ہوا میچ ہار چکا تھا اور اب تمام کھلاڑی پرعزم تھے کہ وہ اس بار ویسٹ انڈیز کو جیتنے نہیں دیں گے۔

یہ میچ 20 جون 1979ء کو کینگسٹن اوول لندن میں کھیلا گیا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر ویسٹ انڈیز کو بلے بازی کی دعوت دی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں گورڈن گرینج، ڈیسمنڈ ہینز، ویون رچرڈز، کلائیو لائیڈ، کالس کنگ اور کالی چرن جیسے بلے باز شامل تھے جبکہ ان کے تیز رفتار باؤلرز اینڈی رابرٹس، جوئیل گارنر، مائیکل ہولڈنگ اور کرافٹ کسی بھی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کر سکتے تھے۔

ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 60 اوورز میں 293 رنز بنائے جن میں گورڈن گرینج نے 73، ڈیسمنڈ ہینز نے 65، ویون رچرڈز نے 42، لائیڈ نے 37 اور کنگ نے برق رفتار 34 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کے صرف چھ کھلاڑی آئوٹ ہوئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چھ کھلاڑیوں میں چار کو کپتان آصف اقبال نے آئوٹ کیا جبکہ عمران خان اور سرفراز نواز کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ ہر بائولر کو زیادہ سے زیادہ 12 اوورز کرانے کی اجازت تھی۔ ماجد خان آف سپن بائولنگ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے بارہ اوورز میں صرف 26 رنز دئیے۔

پاکستان کی طرف سے ماجد خان اور صادق محمد نے بلے بازی کا آغاز کیا۔ صادق محمد صرف 2 رنز بنا کر مائیکل ہولڈنگ کی گیند پر وکٹ کیپر ڈیرک مرے کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہو گئے۔

اس کے بعد ماجد خان اور ظہیر عباس نے شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ دونوں نے بالترتیب 84 اور 91رنز بنائے۔ دونوں کی دلکش بلے بازی دیکھ کر شائقین کرکٹ بہت محظوظ ہوئے اور ان دونوں نے ان کو کھل کر داد دی۔

دونوں بلے بازوں نے ویسٹ انڈیز کے برق رفتار بائولرز کا بھرکس نکال دیا۔ لیکن جونہی یہ دونوں آئوٹ ہوئے پاکستان کی بدقسمتی کا سفر شروع ہو گیا۔ بعد میں آنے والے بلے باز ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

ہارون رشید، جاوید میاں داد، آصف اقبال اور عمران خان ویسٹ انڈیز کی بائولنگ کا مقابلہ نہ کر سکے۔ پوری ٹیم 250 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی اور پاکستان یہ میچ 43 رنز سے ہار گیا۔

جب ماجد خان اور ظہیر عباس کھیل رہے تھے تو صاف لگ رہا تھا کہ پاکستان یہ میچ جیت جائے گا لیکن 1975ء کی طرح پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ جیتا ہوا میچ بھی ہار گیا۔ اس پر پاکستانی کرکٹ شائقین کو بہت دکھ ہوا۔ بہرحال یہ ایک شاندار سیمی فائنل تھا۔

بھارت بمقابلہ انگلینڈ (1983)

1983ورلڈکپ کا پہلا سیمی فائنل بھارت اور انگلینڈ کے درمیان 22جون کو مانچسٹر میں کھیلا گیا۔ یہ سیمی فائنل بھی بڑے شاندار طریقے سے کھیلا گیا۔ بھارت نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔ انگلینڈ جو اس سے پہلے بہت اچھا کھیل رہا تھا۔

اس سیمی فائنل میں پہلے جیسی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ سیمی فائنل میں فیورٹ انگلینڈ تھا لیکن بھارت نے تمام اندازے غلط ثابت کر دئیے۔ انگلینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے صرف 213 رنز بنائے جب کہ بھارت نے یہ ہدف صرف چار وکٹیں کھو کر حاصل کر لیا۔انگلینڈ کی طرف سے فائولر نے سب سے زیادہ 33 رنز بنائے۔

بھارت کی طرف سے کپیل دیو اور مہندر امرناتھ نے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ بھارت کی طرف سے یش پال شرما نے 61‘ سندیپ پاٹل نے 51 اور مہندر امر ناتھ نے 46 رنز بنائے۔ انگلینڈ کے بائولرز کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔

انگلینڈ کو ہرا کر بھارتی ٹیم نے جو اعتماد حاصل کیا تھا وہ فائنل میں بہت کام آیا اور انہوں نے ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کو شکست دے کر ورلڈکپ جیت لیا۔ بہرحال انگلینڈ اور بھارت کا یہ سیمی فائنل بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا (1987)

یہ سیمی فائنل اس لحاظ سے یادگار ہے کہ آسٹریلیا نے پاکستان کو غیر متوقع طور پر ہرا دیا۔ 1987 کے ورلڈ کپ میں پاکستان فیورٹ تھا۔ کرکٹ کے پنڈت پاکستان کا نام لے رہے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے گزشتہ سال بھارت کو بھارت میں اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرایا تھا اور اس کے کھلاڑی بھرپور فارم میں تھے۔

کپتان عمران خان نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ اس ورلڈ کپ کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ آسٹریلیا کی ٹیم اتنی تجربہ کار نہیں تھی۔ لاہور میں ہونے والے اس سیمی فائنل میں آسٹریلیا کی ٹیم نے غیر معمولی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا اور ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم کو ہرا دیا۔

دراصل اس سیمی فائنل کو ہروانے میں منصور اختر اور سلیم جعفر نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ورلڈ کپ میں ہر میچ کو 50 اوورز تک محدود کر دیا۔ آج بھی یہ میچ یاد آتا ہے تو دل افسردہ ہو جاتا ہے۔

ہزاروں شائقین کو پاکستان کی فتح کا سو فیصد یقین تھا لیکن ان کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے جب پاکستان آسٹریلیا سے 18 رنز سے یہ سیمی فائنل ہار گیا۔

سارے اخبارات نے اسے خوش قسمت کپتان کی بدقسمتی سے تعبیر کیا۔ سیمی فائنل جیت کر آسٹریلیا نے جو زبردست اعتماد حاصل کیا اسی کی بدولت اس نے فائنل میں انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈکپ اپنے نام کر لیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے کرکٹ تبصرہ نگار بڑے زور وشور سے یہ کہہ رہے تھے کہ کلکتہ میں ہونے والا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا جائے گا۔ لیکن قسمت کے کھیل نرالے میرے بھیا۔ پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے جبکہ بھارت سیمی فائنل میں انگلینڈ سے ہار گیا۔

قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلے جانے والے اس سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 8 وکٹوں پر267 رنز بنائے۔ ڈیوڈ بون نے 65‘ ڈین جونز نے 38 اور ویلٹیا نے 48رنز بنائے ۔عمران خان نے شاندار بائولنگ کی اور 3وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم اکرم کو کوئی وکٹ نہ ملی جبکہ سلیم جعفر نے 57رنز دئیے اور وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے آخری اوور میں 18رنز دئیے۔ توصیف احمد اور سلیم ملک نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ پاکستان کی طرف سے منصور اختر پر بڑا بھروسہ کیا جا رہا تھا لیکن وہ صرف 9رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ جاوید میاں داد اور عمران خان نے ذمہ دارانہ بلے بازی کرتے ہوئے بالترتیب 70 اور 58رنز بنائے۔ عمران خان کو امپائرڈ کی برڈ نے آئوٹ قرار دیا جس پر عمران خان نے اپنے انداز میں احتجاج کیا۔ ان کے خیال میں وہ آئوٹ نہیں تھے۔

بعد میں ڈکی برڈ نے بھی اعتراف کیا کہ ان کا وہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اس ایک غلط فیصلے نے ورلڈ کپ کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔

بہرحال یہ وہ تمام عوامل تھے جو پاکستان کی شکست کا باعث بنے۔ قذافی سٹیڈیم لاہور میں شائقین حیرت کا مجسمہ بنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ یہ میچ کئی حوالوں سے ایک شاندار میچ تھا۔

بمقابلہ نیوزی لینڈ (1992)

واہ! کیا سیمی فائنل تھا۔ کوئی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ نیوزی لینڈ ہر ٹیم کو شکست دے رہا تھا۔ پھر پاکستان نے نیوزی لینڈ کو لیگ میچ میں ہرایا اور اس نے جس شاندار طریقے سے سیمی فائنل میں کیویز کو شکست دی وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

یہی وہ میچ تھا جس نے انضمام الحق کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جس طرح پاکستان نے نیوزی لینڈ کو لیگ میچ میں شکست دی تھی۔ لگتا نہیں تھا کہ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم اتنا سخت مقابلہ کرے گی۔

آک لینڈ میں ہونے والے اس سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے کپتان مارٹن کرو نے 91 رنز بنائے۔ دوسرے قابل ذکر بلے باز ردرفورڈ تھے جنہوں نے 50 رنز کی اننگز کھیلی۔ نیوزی لینڈ نے سات وکٹوں پر 262 رنز بنائے۔

وسیم اکرم ‘ مشتاق احمد اور عاقب جاوید نے بہت اچھی بائولنگ کا مظاہرہ کیا لیکن اقبال سکندر نے بڑی خراب بائولنگ کی۔ انہوں نے 9اوورز میں56 رنز دے کر صرف ایک وکٹ حاصل کی۔ کپتان عمران خان نے 10اوورز کرائے اور 59رنز دئیے۔ لیکن انہیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔

پاکستان کی طرف سے عامرسہیل نے 14‘ رمیز راجہ نے 44‘ عمران خان نے 44‘ جاوید میاں داد نے 57اور انضمام الحق نے 60رنز بنائے۔ انضمام الحق نے اس وقت ایک بڑی اننگز کھیلی جب پاکستان مشکلات کا شکار تھا۔

جاوید میاں داد نے ان کا خوب ساتھ دیا۔ اس طرح پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا کے پہلی بار ورلڈکپ فائنل میں پہنچ گیا۔ یہ سیمی فائنل بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بھارت، سری لنکا (1996)

اس سیمی فائنل کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس میچ میں بھارت کی متوقع شکست دیکھ کر تماشائیوں نے گرائونڈ میں بوتلیں پھینکنا شروع کر دیں۔ لیکن پھر بھارت کو شکست ہو ہی گئی۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 251 رنز بنائے جن میں ڈی سلوا نے 66‘ روشن ماہنامہ نے 58اور رانا ٹنگا نے 35رنز بنائے۔ جواب میں سری لنکا کے سپنروں نے بھارت کی بلے بازی تباہ کر کے رکھ دی اور پوری بھارتی ٹیم 120رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

ٹنڈولکر نے 65رنز بنائے لیکن ان کے علاوہ کوئی بلے باز قابل ذکر سکور نہ کر سکا۔ ونود کامبلی نے 10رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ دراصل بھارتی تماشائی اپنی ٹیم کی شکست برداشت نہ کر سکے اور سٹیڈیم میں بوتلیں اور دوسری چیزیں پھینکنا شروع کر دیں۔

شکست پر بھارتی بلے باز ونود کامبلی روتے رہے بھارتی ٹیم اور تماشائی یہ سمجھ رہے تھے کہ کوارٹر فائنل میں پاکستان کو ہرا کے گویا انہوں نے ورلڈ کپ میچ جیت لیا ہے حالانکہ سری لنکا اس وقت پورے عروج پر تھا اور کسی بھی ٹیم کو اسے ہرانا بہت مشکل تھا۔

دراصل اپنے کھلاڑیوں کو مسلسل آئوٹ ہوتے دیکھ کر بھارتی تماشائی بوکھلا گئے۔ جب گرائونڈ میں بہت کچھ پھینکا گیا تو سری لنکا کے کپتان رانا ٹنگا اور دوسرے کھلاڑیوں نے امپائر کی توجہ اس طرف دلائی۔ چند منٹ کے بعد میچ ریفری کلائیو لائیڈ نے میچ کا فیصلہ سری لنکا کے حق میں کر دیا۔ اس وقت ونود کامبلی اور انیل کمبلے کریز پر موجود تھے۔

بھارت کے آٹھ کھلاڑی 120 رنز پر آئوٹ ہو چکے تھے۔ دراصل تماشائیوں کا یہ ردعمل اپنے کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی کے خلاف تھا۔ انہوں نے سری لنکن کھلاڑیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ ورلڈکپ کی تاریخ میں اس سیمی فائنل کو سب سے انوکھا قرار دیا جاتا ہے۔

آسٹریلیا، جنوبی افریقہ (1999)

اس سیمی فائنل کو ورلڈ کپ کا سب سے بڑا میچ بھی کہتے ہیں۔ جنوبی افریقہ نے ثابت کر دیا کہ وہ چوکر ہیں اور بڑے میچ میں ہمت ہار جاتے ہیں۔ 17 جون 1999 کو ایجسٹن (برمنگھم) میں کھیلے گئے اس میچ میں آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 49.2 اوورز میں 213رنز بنائے۔

جنوبی افریقہ کے بائولرز نے بڑی نپی تلی بائولنگ کی اور آسٹریلیا کے بلے بازوں کو باندھ کے رکھ دیا۔ آسٹریلیا کے ون ڈے سپیشلسٹ مائیکل بیون نے سب سے زیادہ 65 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کے بائولر شان پولاک نے 36 رنز دے کر پانچ کھلاڑی آئوٹ کیے۔ جنوبی افریقہ نے بڑے اعتمار سے بلے بازی کی۔ گیری کرسٹن اور ہرشل گبز نے اپنی ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کیا۔ لیکن پھر وکٹیں گرنا شروع ہو گئیں اور 61 رنز پر جنوبی افریقہ کے 4بلے باز پیولین لوٹ گئے۔ اس کے بعد جیک کیلس اور جونٹی روڈز نے اپنی ٹیم کو سنبھالا اور سکور خاصا آگے لے گئے۔

شین وارن نے بہترین بائولنگ کی اور اپنی ٹیم کو فیصلہ کن موڑ تک لے آئے‘ ادھر شان پولاک اور مارک بائوچر نے بھی قیمتی رنز بنائے اور پھر لانس کلوزنر نے زبردست سٹروک پلے کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر آسٹریلوی کھلاڑیوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اب آخری اوور کا کھیل باقی تھا اور جنوبی افریقہ کو فتح کے لئے 11رنز کی ضرورت تھی۔ آسٹریلوی بائولر فلیمنگ کی پہلی دو گیندوں پر کلوزنر نے دو چوکے لگا دئیے۔ آسٹریلوی کھلاڑی حواس باختہ ہو گئے۔ پھر سکور برابر ہو گیا۔اس موقع پر سٹیووا نے کمال کی کپتانی کی۔

انہوں نے اعصاب کو قابو میں رکھا اور ایسی فیلڈنگ سیٹ کی کہ ایک سکور نہ ہو سکے۔ کلوزنر اور ایلن ڈونلڈ کریز پر تھے۔ جنوبی افریقہ کو فتح کیلئے ایک رن درکار تھا۔ کلوزنر نے ایک شاٹ کھیلی اور سنگل لینے کیلئے بھاگے لیکن ڈونلڈ مڑ کر فیلڈر کی طرف دیکھتے رہے اور پھر انہیں ہوش آیا کہ کلوزنر رن لینے کیلئے دوڑ پڑے ہیں لیکن ڈونلڈ دوسرے اینڈ تک پہنچتے پہنچتے رن آئوٹ ہو چکے تھے اور یوں یہ میچ برابر ہو گیا لیکن چونکہ آسٹریلیا لیگ میچ میں جنوبی افریقہ کو ہرا چکا تھا اس لیے وہ فائنل میں پہنچ گیا۔ اسے سوائے بدقسمتی کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔