اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان میں بجلی بنائی اور بیچی جا رہی ہے، بجلی خریدنے اور استعمال کرنے والے بھی بہت ہیں مگر بجلی بنانے، بیچنے اور خریدنے والے سبھی مالیاتی گردش میں ہیں اور گردشی قرضے کا شور مچا رہے ہیں۔
سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نجی پاور پلانٹس سے ادھار پر بجلی خریدتی اور پیشگی رقم لیے بغیر تقسیم کار کمپنیوں کو دیتی ہے۔ تقسیم کار کمپنیاں بجلی صارفین کو بیچ دیتی ہیں مگر وہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو ادائیگی نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ایجنسی آئی پی پیز کو واجب الادا رقم واپس نہیں کر پاتی۔ بجلی کی خریداری اور ادائیگی کا یہی فرق گردشی قرضہ ہے جو بڑھتے بڑھتے 12 سو ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔
مختلف اداروں کی جانب سے بجلی بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پرائیویٹ صارفین نے تقسیم کار کمپنیوں کے 696 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ مختلف وفاقی اداروں نے 7 ارب، آزاد کشمیر حکومت 99 ارب اور صوبائی اداروں نے 40 ارب سے زائد دبا رکھے ہیں۔ بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کے بلوں کی مد میں 232 ارب روپے کے واجبات ہیں۔
اس سنگین صورتحال سے نکلنے کیلئے سبھی فریقین کو موجودہ روش چھوڑ کر صحیح راستہ اپنانا ہوگا اور حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے اپنے وسائل بروئے کار لائے یا باہر سے مدد لی جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے ساتھ اگر گورننس کی بہتری پر بھی توجہ دی جاتی تو صورتحال اتنی بری نہ ہوتی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق توانائی کے شعبے کے بیشتر مسائل آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔
گردشی قرضے کو حکومت یکمشت بڑی ادائیگی سے وقتی طور پر کم تو کر سکتی ہے مگر اس سنگین مسئلے کا مستقل حل یہی ہے کہ تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے وصولیاں بہتر بنائیں۔ سی پی پی اے کو بجلی کی رقم دیں اور آئی پی پیز کو بروقت ادائیگی کی جاتی رہے۔