کون بنے گا صدرِ پاکستان؟ بڑا سیاسی دنگل کل ہو گا

Last Updated On 03 September,2018 09:58 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) تیرہویں صدر پاکستان کے انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کل بروز منگل کو ہو گی۔

حکومتی اتحاد کےعارف علوی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔ موجودہ صدر ممنون حسین کےعہدے کی مدت آٹھ ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔

نئے صدرِ مملکت کے انتخاب کا میدان سج گیا، الیکشن کے تمام انتظامات مکمل، تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گ۔ سینیٹ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ 706 ووٹرز پر مشتمل الیکٹورل کالج میں سے 689 ووٹ کاسٹ ہونے کا امکان ہے۔

ملک کے تیرہویں صدر کے انتخاب کیلئے پولنگ منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہو گی۔ پولنگ صبح دس بجے شروع ہو کر سہ پہر چار بجے تک جاری رہے گی۔

متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان انتخابی عمل کی نگرانی کریں گے جبکہ چیف الیکشن کمشنر ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام دیں گے۔

صدارتی انتخاب خفیہ رائے شماری کے تحت ہو گا۔ ووٹر پردے کے پیچھے اپنے امیدوار کے نام پر مہر لگا کر بیلٹ پیپر باکس میں ڈالے گا۔ ووٹ ڈالنے کیلئے تمام ممبران کے پاس متعلقہ اسمبلی کا جاری کردہ شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے۔ موبائل فون ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔

صدارت کیلئے عارف علوی تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے نامزد امیدوار ہیں۔ ن لیگ، ایم ایم اے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمان ہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو میدان میں اتار رکھا ہے۔ نومنتخب صدرِ مملکت کی حلف برداری 9 ستمبر کو ہو گی۔

پارٹی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 251 ہے، اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی کے 28، ایم کیو ایم کے 20، بی این پی کے 14، جی ڈی اے کے 9، مسلم لیگ ق کے 6، بی این پی عوامی کے 3، جمہوری وطن پارٹی کے دو، عوامی مسلم لیگ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک، ایک ووٹ ہے۔ یوں اگر تما م ووٹ ملا لیں تو تحریک انصاف 335 کے سکور کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بنتی نظر آ رہی ہے۔

مسلم لیگ ن کے ارکان کی کل تعداد 144 ہے، متحدہ مجلس عمل کے 40 ووٹ ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کا دعویٰ ہے کہ اسے پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اے این پی اور نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد 14، اے این پی کے 10 اور نیشنل پارٹی کے 5 ارکان ہیں۔ یوں پیپلزپارٹی کو اگر مائنس کر دیں تو ن یگ کے حمایت یافتہ مولانا فضل الرحمان کے 211 ووٹ بن سکتے ہیں۔

اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے 116 ارکان ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 22 ہے، تحریک لبیک پاکستان کا ایک ووٹ ہے، پیپلز پارٹی کے اعتزازا حسن کو پارٹی کے علاوہ کتنے ووٹ ملتے ہیں یہ ابھی سوالیہ نشان ہے۔

موجودہ الیکٹورل کالج کے مطابق 679 ارکان صدارتی انتخاب میں ووٹ پول کر سکیں گے جبکہ سادہ اکثریت 341 ووٹ بنتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی ہدف کے کافی قریب نظر آ رہی ہے۔

دوسری طرف اگر مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن اتحاد اور پیپلز پارٹی متفقہ امیدوار لے آئیں تو سکور 327 بن سکتا ہے اور اس صورت میں کانٹے کے مقابلے کا بھی امکان ہے۔
 

Advertisement