سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کے انتخابی اخراجات پر چند سوالات؟

Last Updated On 07 August,2018 10:00 pm

لاہور: (دنیا الیکشن سیل) سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے انتخابی اخراجات پر سوالات اٹھا دیے، معروف قانون دان سعد رسول کا کہنا ہے کہ سیاست کے تمام دھڑے انتخابی مہم کے اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے انتخابی اخراجات پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات میں ہونے والے اخراجات کی حد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے لیے 40 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے لیے 20 لاکھ مقرر کی ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان اخراجات پر کسی بھی قسم کی قانون سازی نہیں کی جو سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے لیے کرتی ہیں مثلاً پارٹی قائدین کا جلسوں میں آنے جانے کے اخراجات، ہیلی کاپٹرز یا جہازوں کے استعمال پر آنیوالے اخراجات جو لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی اخراجات کی اس شق پر خاموش ہے اور کسی بھی طرح کی قانون سازی عمل میں نہیں لائی گئی۔ سیاسی جماعتیں بھی اس انتخابی اخراجات کی شِق پر خاموش رہی ہیں تا کہ ان کے مفادات کو کسی بھی قسم کے خطرات لاحق نہ ہوں ورنہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ اس شق میں تبدیلی کی جاتی اور انتخابات پر ہونے والے اخراجات کو ٹھیک طرح سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عوام کے سامنے پیش کیا جاتا۔

31اگست 2017ء کو تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے بنک اکاؤنٹس کی وضاحت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائی جس میں یہ بتایا گیا ہے پارٹیوں کے اکاؤنٹ میں کتنی رقم موجود ہے لیکن ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات پر آنے والے کروڑوں کے اخراجات کس مد میں جائیں گے بلکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 132 کے تحت یہ سارے اخراجات جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں جائیں گے اور وہ اپنے اخراجات کی فراہم کردہ تفصیلات میں درج کرے گا تو کیا اس کے یہ اخراجات الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد سے کم ہوتے ہیں جس پر الیکشن کمیشن بھی چپ سادھ لیتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی بھی امیدوار اور پارٹی کے انتخابی اخراجات کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خاموش ہوجانا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم چلانے کے لیے رقم ان اکاؤنٹس سے خرچ کی ہے جن کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس موجود ہیں تو الیکشن کمیشن کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔ اگر سیاسی جماعتوں نے یہ اخراجات اس قدر زیادہ کیے ہیں جو ان کی فراہم کردہ تفصیلات سے مختلف ہیں تو پھر اس پر الیکشن کمیشن کو سخت اقدام کرنے چاہئیں۔

انتخابی اخراجات پر قانونی رائے دیتے ہوئے معروف قانون دان سعد رسول کا کہنا تھا کہ ہماری عدالتی تاریخ کی چھان بین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی اخراجات کے معاملے پر آج تک ایک بھی قابلِ ذکر مقدمہ نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ تمام جماعتوں اور امیدواروں نے ہمیشہ انتخابی اخراجات کو جائز ذرائع اور جائز حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، بلکہ اس لیے کہ سیاست کے تمام دھڑے انتخابی مہم کے اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں، اس لیے کسی کو بھی یہ مسئلہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارا سیاسی عمل اسی پر منحصر ہو کر رہ گیا ہے کہ انتخابات کے لیے کون زیادہ رقم خرچ کر سکتا ہے(اور پھر دورِ حکومت میں اگلے انتخابات کیلئے اس کی وصولی کرے)۔

انتخابات کے عمل کو مالی مشق میں تبدیل کرنے سے ہم نے ہر ایک کے انتخابات میں حصہ لینے کا اصول کھو دیا ہے۔اس افسوسناک حقیقت نے ہماری آبادی کی اکثریت کو سیاسی عہدے کے لیے تگ و دو کرنے سے محروم کر دیا ہے اور ان حالات کو ہم اور کسی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری قانون کی کتاب میں موجود ایک قانون کی عمل داری یقینی نہ بنانے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔

کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ انتخابی مہم کے اخراجات کا قاعدہ ہمارے ملکی قوانین میں نہیں ہے۔ نتیجتاً ساری کی ساری ذمہ داری (قصور) ان قوانین کو نافذ کرنے کا الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی پر عائد ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کس طرح یقینی بناتا کہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 132کا منشا پورا کیا جا رہا ہے؟ الیکشن کمیشن نے ہر امیدوار کے اخراجات کا جائزہ لینے کے لیے کیوں مخصوص انتظامات نہیں کیے ہیں؟ اس مقصد کیلئے کیوں ایس او پیز نہیں بنائے گئے؟ ہر حلقے میں انتخابی اخراجات کا جائزہ لینے کے لیے کیوں خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل نہیں دی گئیں؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان صرف امیدواروں کے بیانات پر یقین رکھتا ہے؟ یا اس کے پاس پڑتال کا اپنا بھی کوئی نظام موجود ہے؟

اب تک تو انتخابی اخراجات کی مانیٹرنگ کے عمل میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے اور کمیشن کے لیے یہ آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی سے کہیں زیادہ خفت کا مقام ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اس قسم کے اخراجات کی اس طرح مانیٹرنگ کرے کہ جس سے انتخابی مہم کے دوران اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کی نشاندہی ہوتی ہو تو اس کے اثرات کی لہر ہمارے پورے سیاسی نظام کے اندر محسوس کی جائے۔ اس سے نہ صرف متعلقہ قانون کا نفاذ ممکن ہوگا بلکہ یہ جمہوریت کے وعدوں کو آبادی کے بڑے طبقات تک وسیع کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا، جو اب تک اس میں حصہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے۔

ادھر چند اہم سیاسی شخصیات نے انتخابی اخراجات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو جو تفصیلات جمع کروائی ہیں ، ان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے این اے 132 لاہور میں انتخابی مہم پر 19 لاکھ 34 ہزار7 سو سینتالیس روپے خرچ کیے، جس میں گاڑی کے فیول پر 6 لاکھ جبکہ تشہیری مہم پر 11 لاکھ کی لاگت آئی۔ این اے 24 لاہور میں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے 18لاکھ 50 ہزار 6 سو پچیس روپے صرف کئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے انتخابی مہم پر این اے 131 لاہور میں 9 لاکھ 97 ہزار 9 سو پچیس جبکہ این اے 53 اسلام آباد میں 38 لاکھ 11 ہزار7 سو پچاس روپے خرچ کئے۔ عبدالعلیم خان نے این اے 129 لاہور میں انتخابی مہم پر کل 39 لاکھ 80 ہزار روپے خرچ کیے۔