موجودہ ماحول میں ملک بظاہر معلق پارلیمنٹ کی جانب جا رہا ہے

Last Updated On 21 July,2018 09:08 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) ملک میں بدھ کو الیکشن ہوں گے، تمام تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں، پیر کو انتخابی مہم کا آخری دن ہوگا۔ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوگا جبکہ خواتین کے لئے 60 اور اقلیتوں کے لئے 10 مخصوص نشستیں ہیں یعنی کہ 342 کے ایوان میں جس سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد کے پاس 172 سیٹوں کی سادہ اکثریت ہوگی اس کی حکومت بنے گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 نشستیں ہیں۔ خواتین کی 35 مخصوص نشستیں ملاکر پنجاب کی نشستیں حکومت سازی کے لئے کافی ہیں جس نے پنجاب کو سویپ کر لیا گویا اس نے الیکشن جیت لیا۔ان خیالات کا اظہار میزبان ’’دنیا کامران خان کے ساتھ ‘‘ نے کیا۔

میزبان کا کہنا تھا کہ موجودہ ماحول میں واضح طور پر لگتا ہے کہ پاکستان ایک معلق پارلیمنٹ کی جانب جا رہا ہے ہنگ پارلیمنٹ پاکستان کے استحکام کے لئے اچھا عمل نہیں ہوگا۔ عمران خان نے بھرپور انداز میں کہا ہے پاکستانی نکلیں اور ووٹ دیں معلق پارلیمنٹ ملک کے لئے بہتر نہیں ہوگی، ایک بار پھر انہوں نے زور دے کر کہا کہ پی ٹی آئی کسی صورت میں پی پی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائے گی نہ ہی وہ ن لیگ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ملاپ کرے گی۔ میزبان کے مطابق فطری طور پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے قریب آتی نظر آرہی ہیں ۔ الیکشن 2018 کے بعد یہ دونوں جماعتیں یا تو اپوزیشن میں ایک دوسرے کے قریب ہوں گی یا ممکن ہوا تو وفاق میں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔اس وقت کی صورتحال کیا بتا رہی ہے؟۔

اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے گیلپ پاکستان کے چیئرمین اعجاز شفیع گیلانی نے کہا ملک میں ہنگ ووٹ تو ہیں لیکن ہنگ پارلیمنٹ آنے کا امکان نہیں ہے اس بارے میں اندیشے ضرورت سے زیادہ ظاہر کئے گئے ہیں اس انتخابی مہم میں کوئی علاقائی اور لسانی منافرت نظر نہیں آتی یہ بات خوش آئند ہے کہ ایک صوبے سے لوگ دوسرے صوبے میں جا رہے ہیں اور جلسے بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر مل جل کر بھی حکومت بنتی ہے تو اس میں تشویش والی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا پنجاب میں کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت نہیں رکھتی اس وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہنگ پارلیمنٹ آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی اور ن لیگ کے مشترکہ مخالف عمران خان ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ اکٹھی ہو جائیں گی۔

ممتاز سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا مسلم لیگ کو پنجاب میں کسی حد تک نقصان پہنچا ہے جنوبی پنجاب کے علاوہ وسطی اور شمالی پنجاب کے متعدد اضلاع میں با اثر سیاسی خاندانوں نے پی ٹی آئی کا رخ کیا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کم ہوچکا ہے یا ختم ہوگیا ہے تا ہم یہ 2013 کی صورتحال بھی نہیں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھی ہے اس کے ساتھ وسطی پنجاب میں ن لیگ کا ووٹ بینک قائم ہے اور اس کے قدم اکھڑے نہیں۔ انہوں نے بتایا پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے قریب آچکی ہیں بظاہر ان کی سیاست مختلف ہے مگر اندر سے دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

سینئر تجزیہ کار و صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ اصل مقابلہ پنجاب میں ہے پنجاب فیصلہ کرے گا کہ مرکز میں کس کی حکومت ہوگی، سندھ میں بھی کافی سیٹیں ہیں وہاں ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری رہا ہے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکمران جماعت رہی ہے اور یہ بڑی حیرانی کی بات ہوگی اگر اس کو دوبارہ کامیابی ملتی ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نئی پارٹی ہے اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے بل بوتے پر انتخابات جیتتے ہیں۔ کافی سردار اور بڑے نام ہیں ان کو تو سیٹیں ملیں گی جبکہ شمالی بلوچستان یعنی پشتونوں کے علاقے میں محمود اچکزئی کی پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف ) کو باری باری سیٹیں ملتی ہیں ،اس بار باری جے یو آئی (ف) کی ہے جو پارٹیاں 2013 میں بلوچستان میں حکومت میں تھیں لگتا ہے اس بار ان کو کامیابی نہیں ملے گی اور بلوچستان میں نیا اتحاد اور مخلوط حکومت بنے گی۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو ہر جگہ پر کچھ حمایت حاصل ہے۔ اے این پی کو پشاور کی وادی میں حمایت حاصل ہے۔ نواز لیگ کی حمایت ہزارہ ڈویژن اور مالا کنڈ ڈویژن میں ہے ۔جماعت اسلامی کے مخصوص علاقے دیر،بونیر اور چترال ہیں ۔جنوبی اضلاع میں جے یو آئی کو کامیابی ملتی ہے لیکن وہاں پر بھی پی ٹی آئی کا اس سے سخت مقابلہ ہے ان میں ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ، لکی مروت شامل ہیں، اگر پی ٹی آئی کو دوبارہ موقع ملا تو اس سے ثابت ہوگا کہ کے پی کے کے عوام اس سے بہت مطمئن ہیں کیونکہ کے پی کے کے لوگ بہت کڑا احتساب کرتے ہیں۔