اسلام آباد: (ویب ڈیسک) عالمی بینک نے کہاہے کہ یوکرین کی جنگ، عالمی معاشی سکڑاؤ اور کھادوں و زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیائے خور و نوش کی بلند قیمتوں کا رحجان جاری ہے جس سے دنیا بھر کے 45 ممالک میں 205 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر سے دسمبر 2022 تک کی مدت میں تمام کم آمدنی والے اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں افراط زر کی شرح بلند رہی ہے، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں افراط زرکی شرح دوہندسی ہے، اس کے برعکس زیادہ آمدنی والے ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کی شرح 87.3 فیصد تک پہنچ گئی۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے افریقا، شمالی امریکا، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا، یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک زیادہ متاثرہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے دسمبر 2022 کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سود کی شرح میں اضافے سے قیمتوں کے دباؤ میں قدرے نرمی کے باوجود یوکرین کی جنگ، توانائی کے اخراجات میں اضافہ اور موسمیاتی واقعات وعوامل کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتیں بلند رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ سے غذائی عدم تحفظ اورسماجی تفاوت میں اضافہ ہوا ہے، اس صورتحال نے کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک کے بجٹ پر دباؤ ڈالا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق کھاد کی بلند قیمتیں کم آمدنی والے ممالک میں خوراک کی پیداوار میں ایک اہم رکاوٹ بن گئی ہیں، جو 2023 اور 2024 میں مختلف فصلوں کی پیداوار کے عمل کو عدم استحکام سے دو چار کر سکتی ہے، اس وقت دنیا کے 45 ممالک میں 205 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بہت سے ممالک میں کافی خام مال نائٹروجن، پوٹاش، فاسفیٹ، قدرتی گیس اور پیداواری سہولیات کی کمی ہے جس سے کسانوں کو کھادوں تک سستی رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق2020 کے اوائل سے کھادوں کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں جبکہ کھادوں کی مارکیٹ بھی غیر مستحکم رہتی ہیں، جس سے چھوٹے کاشتکاروں کو کھادوں کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں میں قدرتی گیس اورڈیزل پرسبسڈی کی وجہ سے کسان زیادہ پھل اور سبزیاں اگا رہے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے 44 کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں نومولود اور کم عمر بچوں کی صحت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔