جوہری پروگرام مذاکرات: سعودی عرب کی شمولیت کا مطالبہ ایران نے مسترد کر دیا

Published On 07 December,2020 07:08 pm

تہران: (ویب ڈیسک) ایران نے جوہری پروگرام پر کسی بھی ممکنہ گفت و شنید اور مذاکرات کے لیے سعودی عرب کی طرف سے خلیجی ریاستوں کی شمولیت کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ہفتے کے روز مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر سعودی حکومت سے مکمل مشاورت کی جائے۔

اے ایف پی کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر کسی کو بات کرنے کی آزادی ہے لیکن بہتر ہے کہ کوئی بھی اپنی سطح سے اوپر بات نہ کرے تاکہ خود شرمندہ نہ ہو سکے۔

واضح رہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ 2015 کے اس جوہری معاہدے میں واپس شمولیت اختیار کر لیں گے، جے سی پی او اے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ معاہدہ 2018 سے اس وقت سے آخری سانسیں لے رہا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کے سلسلے میں اس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سے پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

2019 کے بعد سے ایران پابندیوں کے جواب میں آہستہ آہستہ اہم جوہری بندشوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ایران معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل کو یقینی نہ بنانے کو یورپ کی ناکامی قرار دیتا ہے۔

تہران نے موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اگر معاہدے کے دوسرے فریق اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو معاہدے کی بندشوں پر مبنی شقوں کو بحال کیا جاسکتا ہے۔

سعودی عرب میں معروف عالم دین کی پھانسی کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد سے ہی ریاض نے تہران سے تعلقات منقطع کر رکھے ہیں۔ دونوں ممالک شام سے یمن تک کے مختلف تنازعات میں حریف ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جوہری معاہدے کی تجدید کے خلاف ایران کے موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ جے سی پی او اے پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔

انہوں نے جرمنی کی جانب سے اس معاہدے میں توسیع کی حالیہ درخواست کو بھی مسترد کردیا جو برطانیہ، چین، فرانس اور روس کے ساتھ اس معاہدے کا حصہ ہے۔ ایران اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اس پر کوئی گفت و شنید کی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ یورپ اپنی جگہ جانتا ہے اور اسے یہ جان لینا چاہیے کہ جو کام زیادہ سے زیادہ دباؤ کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا، وہ دوسرے ذرائع سے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔