لاہور: (حافظ بلال بشیر) کفایت شعاری کا عالمی دن 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے، اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد آمدن سے زیادہ اخراجات پر قابو پانا ہے اور بچت کو فروغ دینا ہے، کفایت شعاری کو بہت سی ثقافتوں میں ایک خوبی سمجھا جاتا ہے۔
جب انسانوں نے وسائل بچانے کا تہیہ کر لیا تو 1924ء میں میلان میں پہلی بین الاقوامی کفایت شعاری کانگریس منعقد ہوئی، کفایت شعاری کا عالمی دن منانے کا آغاز اسی سوچ کی کڑی تھا۔
اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد آمدن سے زیادہ اخراجات پر قابو پانا ہے اور بچت کو فروغ دینا ہے، ہر سال اس کا ایک تھیم مقرر کیا جاتا ہے، حالیہ برسوں میں، تھیمز محفوظ مستقبل کیلئے بچت کے خیال کے گرد گھوم رہے ہیں، مثال کے طور پر 2022ء کا تھیم تھا ’’کفایت شعاری آپ کو ایک مستحکم مستقبل کیلئے تیار کرتی ہے‘‘۔
اس دن کی مناسبت کے تحت، بینک، مالیاتی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو بچت کھاتے کھولنے، اپنے بجٹ کی منصوبہ بندی کرنے اور طویل مدتی مالیاتی فیصلے کرنے کی ترغیب دینے کیلئے ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنس وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔
بچت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے عالمی سطح پر مختلف اقدامات کئے جاتے ہیں، ان میں تعلیمی پروگرام، بچت کے چیلنجز، اور کمیونٹی پر مبنی مالی خواندگی کی مہمات شامل ہیں جن کا مقصد بالغ افراد اور بچوں دونوں کیلئے ہے، اس دن کی مناسبت سے بہت سے بینک خصوصی بچت سکیمیں متعارف کرواتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچت کی باقاعدہ عادت اپنانے کی ترغیب دی جا سکے۔
دنیا میں بچت کرنے کا سب سے زیادہ رواج جن ملکوں میں ہے ان میں سرفہرست مکاؤ، جمہوریہ کانگو، قطر، آئرلینڈ، برونائی، سنگاپور، لکسمبرگ، گبون، متحدہ عرب امارات اور چین ہیں۔
دین اسلام نے بھی کفایت شعاری کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے ترجمہ ’’اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 27)، قرآن کریم کے اس فرمان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ فضول خرچی کرنا دراصل اللّٰہ تعالیٰ کی ناشکری کرنا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی اس حوالے سے مکمل رہنمائی کی گئی ہے رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مالدار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کر دیتا ہے۔ (مسند البزار، 161/3، حدیث946)۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے،‘‘ اسلام ہمیں ہر چیز کو احتیاط سے کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ جس نے کفایت شعاری کو اپنایا، اْس نے حکمت و دانائی سے کام لیا، امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے، انگریز مفکر سوفٹ کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری سب سے بڑی دولت ہے۔
آج دنیا بھر میں معاشی حالات مستحکم نہیں ہیں، صرف ممالک ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص پریشان نظر آتا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ پریشانی کی ایک بڑی وجہ صرف فضول خرچی، خواہشات کی تکمیل ہے تو یہ غلط نہ ہوگا، آج کے گلوبل ویلیج میں اکثر افراد سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی مصنوعات، برانڈڈ چیزیں دیکھ کر اُنہیں بلا وجہ اپنی خواہشات اور منشا بنا لیتے ہیں، ان کی ذاتی جمع پونجی خواہشات کی تکمیل کے راستے میں ہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اُداس و غمگین رہنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اسی پریشانی میں مبتلا ہو کر کئی ایک تو اپنی زندگی تک کا خاتمہ کر لیتے ہیں جبکہ کئی افراد ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اپنے سے کم حیثیت، کم مرتبہ افراد کی طرف نظر کرنے کا حکم دیا، یہ حکم تمام امورِ خیر کی جمع ہے کیونکہ جب بندہ دنیاوی اعتبار سے اپنے سے بَر تَر شخص کو دیکھتا ہے تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی اُس فلاں بندے کی طرح بنے اور خود کے پاس جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اُسے تھوڑا سمجھتا ہے اور زیادہ کی طلب میں لگ جاتا ہے۔
خواہشات تو انسان کی قبر تک پوری نہیں ہو سکتیں، جب بندہ دنیاوی امور میں اپنے سے کم مرتبے، اپنے سے کم مال ودولت والے کو دیکھتا ہے تو اُسے سمجھ آتی ہے کہ مجھ پر تو اللہ پاک کی کس قدر نعمتیں ہیں تو وہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر بجا لاتا ہے، بہت آسانی کے ساتھ تمام ضروریات پوری بھی ہو جاتی ہیں اور انسان کا دل بھی مطمئن ہو جاتا ہے، میانہ روی اور کفایت شعاری کو اپنا کر انسان اپنے کئی رکے ہوئے کاموں کو بھی بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔
کفایت شعاری، میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب خود کو محروم رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم صحیح اور بہتر فیصلے کرنا ہے، جب آپ فضول خرچی نہیں کریں گے تو پھر صحیح وقت آنے پر صحیح جگہ پر سرمایہ کاری کر کے بہتر سے بہترین کی طرف قدم اٹھائیں گے، بچت اور دانشمندانہ فیصلہ سرمایہ کاری کے ذریعے آپ کو زندگی میں کامیابی کی طرف لے کر جائے گا۔
حافظ بلال بشیر نوجوان لکھاری ہیں، ان کے مضامین مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔