اسلام آباد: (دنیانیوز) اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے کی ۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چودھری ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا ، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں ۔
خاور مانیکا کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج کے میرے دلائل بالجبر ہوں گے، ایک قیدی کو عدالت کی جانب سے ایسی سہولیات کیسے دی جا سکتی ہیں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جنرل ایڈجرنمنٹ کو ختم کر دیا گیا، لیکن ہر عام آدمی کے کیس میں یہ اسپیشل سہولیات کیوں نہیں ملتیں؟ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیسز میں فون پر کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے کیسز میں یہ آرڈر ہو چکا؟
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ کیا ہمارے پاس گالم گلوج بریگیڈ نہیں؟ ہم پروپیگنڈا نہیں کرتے؟ یہ عام آدمی کا سوال ہے؟ میری تاریخ ہے میں ماہ محرم میں بھی بہت کم کام کرتا ہوں، یہ مہینہ تقدس اور افسوس کا مہینہ ہے، جو اہل بیت کے ساتھ ہوا کیا وہ بھلایا جا سکتا ہے؟ میں نے اہل بیت کی محبت میں صرف دس دن کی مہلت مانگی۔
ہمارے وکلاء نے صرف اونچا بولنے پر دہشتگردی کے پرچے بھگتے ہیں: وکیل خاور مانیکا
وکیل زاہد آصف نے مزید بتایا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ میرے دلی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل التوا ملا، یہ کیس میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیس آتے جاتے رہتے ہیں، مجھے کہا گیا جج افضل مجوکا فون پر ہدایات لیتے رہے تو ہمارے کیسز میں ایسا کیوں نہیں ہوا ؟ عام لوگوں کی ضمانتیں ہونے کے بعد 5،5 دن مچلکے جمع نہیں ہوسکتے،اگر آپ میرے حق میں فیصلہ دیں گے تو خوشی کا اظہار کروں اگر خلاف فیصلہ دیں گے تو میں آپ کے خلاف مہم نہیں چلاؤں گا ، ہمارے وکلاء نے صرف اونچا بولنے پر دہشتگردی کے پرچے بھگتے ہیں۔
خاور مانیکا کے وکیل نے کہا کہ جج ہمایوں دلاور صاحب کی کھلی عدالت میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا ، ایک مخصوص ٹولہ ہے جو چیف جسٹس پاکستان سمیت دیگر کی ٹرولنگ کرتا ہے تو عدالتیں کیوں کچھ نہیں کرتیں؟ وکیل کا کام نہیں ہے کہ گالم گلوچ کرے یا الزام تراشیاں کرے۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ مارشل لا نہ لگ جائے اس لیے جسٹس بندیال نے رات کو عدالت کھولی، ان کے ساتھ کیاہوا، اطہر من اللہ کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا سلمان صفدر نے یہاں دھمکی آمیز دلائل نہیں دیے؟ میری تربیت میں بدتمیزی، گالم گلوچ نہیں، جسے میں جانتا ہوں اس سے اجنبی نہیں بن جاتا، وکیل کا کام ڈنڈا اور اسلحہ اٹھانا نہیں وکیل کا کام ایمانداری کے ساتھ کیس لڑناہے۔
خاور مانیکا کے وکیل نے کہا کہ شبلی فراز نے میرے ایسوسی ایٹ کے بارے میں دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے، مجھے اس کی امید نہیں تھی، شبلی فراز صاحب آپ کو ذاتی عداوت ہے تو آئیں مجھے ماریں، میرے ایسوسی ایٹ کو کیوں کہہ رہے ہیں؟
وکیل نے کہا کہ ہم وکیل آپ کا ایندھن کیوں بنیں؟ آپ کی (ن) لیگ، آئی پی پی سے دشمنی ہے تو باہر بات کریں، پہلے مولانا فضل الرحمٰن کو القابات دیے، اب ان کے ساتھ حکومت کو رخصت کرنے کے لیے پلاننگ کر رہے ہیں، مجھے کہا گیا شبلی فراز کے خلاف تھانے میں درخواست دیں لیکن میں کیوں دوں؟ دلائل کے لیے ٹائم مرضی سے رکھوں گا، میں ڈائریکشن کو مدنظر نہیں رکھتا۔
ہو سکتا ہے میں نے بھی پی ٹی آئی کے دھرنوں میں شرکت کی ہو: وکیل خاور مانیکا
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ نہیں ٹائم کو مدنظر رکھنا پڑے گا،وکیل نے کہا کہ میں دلائل اپنی مرضی سے دوں گا، ڈائریکشن کا خیال دوسری پارٹی رکھتی جس کے بندے اندر ہیں، جب یہ لوگ پی ٹی آئی میں پیدا نہیں ہوئے تھے تب بھی میرے بھائی پی ٹی آئی میں تھے، میرے بھائی مجھے کہتے ہیں ہم پی ٹی آئی کے ہیں آپ یہ کیس کیوں لڑ رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے میں نے بھی پی ٹی آئی کے دھرنوں میں شرکت کی ہو۔
اس پر جج افضل مجوکا نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ تو خبر ہے۔
وکیل نے مزید بتایا کہ اگر ریلیف نہیں ملے گا تو کیا ہم ججز کو ٹرول کرنا شروع کردیں گے، چند دنوں ، چند ماہ پہلے پی ٹی آئی میں لوگ میرے معاون وکیل کے ساتھ ذاتیات پر کیوں اتر آئے؟ خاور مانیکا تشدد کیس میں مجھے اپروچ کیا گیا مگر میں نے انکار کردیا کہ دوسری طرف میرے وکلا ہیں، اسلحہ ، ڈنڈا اور لڑائیوں سے مسئلے کا حل نہیں ملے گا، عثمان ریاض گل کو دیکھتا ہوں تو لگتا کہ ریسلر ہیں مگر وہ بہت پیارے ہیں، سلمان صفدر صاحب سے یہ امید نہیں تھی کہ ان کی طرف سے ایسا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سلمان صفدر نے کہا کہ باہر گڑھے کھودے ہوئے ہیں ، جو اپنے لیے گڑھا خود کھودے ان کے لیے کھودنے کی ضرورت نہیں ہے ، کس نے کہا تھا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کریں؟ جناح ہاؤس پر حملہ کردیا، مجھے میرا ایک مؤکل کہتا ہے کہ میں عدالت کا گیٹ توڑ دوں؟ مؤکل نے کہا کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کو کچھ کہا نہیں جاتا۔
بعد ازاں زاہد آصف چودھری ایڈووکیٹ نے باقاعدہ کیس پر اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ عدت کے حوالے سے 1992 کے کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں عدت کے 39 دن بتائے گئے، ایک سوال تھا کہ پہلی شکایت کے بعد دوسری شکایت کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ تو ہم نے پہلی شکایت درج نہیں کرائی اور وہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے واپس لے لی گئی تھی، مسلم فیملی لا میں صرف 90 دن بتایا گیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 40 سال کے بعد خواتین کی ماہواری رک جانے کا ذکر ہے مگر میڈیکلی طور پر 35 سال بھی ممکن ہے، اسلامی نظریاتی کونسل ، فیڈرل شریعت کونسل اور اسلامی اسکالر بھی موجود ہیں، میڈیکل ایکسپرٹ موجود ہیں ، اپنی مرضی کے ایکسپرٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، دو درخواستیں دی ہیں وہ اس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟
اس پر جج نے مکالمہ کیا کہ آپ دلائل دیں، بعد میں ان کو موقع دیں گے، بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے تیار ہیں۔
میرے مؤکل کا نقصان ہوا، اسے میڈیا نے ظالم قرار دے دیا: وکیل خاور مانیکا
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون اس عدالت کو اجازت دیتا ہے کہ آپ ایڈیشنل شواہد مانگ سکتے ہیں ، ان درخواستوں پر میرے معاون وکیل اقبال کاکڑ دلائل دیں گے، زاہد آصف چوہدری کے معاون وکیل نے دو درخواستوں پر دلائل کا آغاز کردیا۔
معاون وکیل نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ایک غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے کہ عورتوں کی شادی نہیں ہوگی ، ہائی پروفائل کیسز میں میڈیا دیکھتا ہے کہ عوام کا رجحان کس سائیڈ پر ہے ، یہ ادراک غلط ہے کہ چوری ، ڈاکہ یا تشدد صرف مرد کرتے ہیں ، میڈیا کسی بھی واقعے کو سنسنی خیز طور پر پھیلاتا ہے ، فیصلہ ہونے سے پہلے میڈیا پر ٹرائل آجاتا ہے۔
معاون وکیل زاہد آصف نے کہا کہ میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، شکایت کنندہ کا جب سے کیس شروع ہوا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے ، ملزم کا بھی میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، میں اس حق میں نہیں ، کہا گیا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سلمان صفدر نے کہا یو این کیا کہے گا، اس عدالت نے ججمنٹس کے حوالے دے کر ان کی مدد کی ، ہم نے آپ پر اعتراض نہیں کیا ، میرے مؤکل کا نقصان ہوا اسے میڈیا نے ظالم قرار دے دیا۔
سلمان اکرم راجہ نےعدالت کو بتایا کہ میں نے سپریم کورٹ میں ملٹری ٹرائل کیس میں پیش ہونا ہے جواب الجواب کے لیے آجاؤں گا۔
ہماری استدعا ہے کہ میڈیکل بورڈ بنایا جائے: معاون وکیل
معاون وکیل زاہد آصف نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ میڈیکل بورڈ بنایا جائے ،ہوسکتا ہے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ ان کے حق میں آجائے ، مجھے امید ہے کہ دوسری پارٹی کو میڈیکل بورڈ کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، 39 دن کے حوالے سے ججمنٹ موجود ہے اس کے بعد 90 اور 100 دن کی ججمنٹ بھی موجود ہے ، اگر بورڈ بننے کے بعد خاتون پیش نہیں ہوتی تو تاثر سامنے آ جائے گا۔
بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل کے دلائل
خاور مانیکا کی درخواستوں پر بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل نے دلائل کا آغاز کر دیا ، بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ ہماری ٹرائل کے دوران یہ خواہش تھی اور جرح کے دوران اس کا ذکر بھی ہے ، میں ڈاکٹر نہیں لیکن مجھے مینوپاز کا علم ہے ، اس موقع پر ان درخواستوں کی کوئی ضرورت نہیں، اضافی ثبوت کے حوالے سے اپیکس کورٹس کے فیصلے موجود ہیں ۔
عثمان ریاض گل نے اضافی ثبوت کے حوالے سے عمر شیخ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کو کوئی کمی پوری کرنے کے لیے اضافی ثبوت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ، ان درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے شکایت کنندہ اور ان کے وکلا کا کنڈکٹ بھی دیکھنا ہو گا، کیس کو التواء میں رکھنے کے لیے متعد کوششیں کی گئیں ، اب یہ عدالت کو کام سے روکنے کے لیے تیسری کوشش کی جا رہی ہے۔
عثمان ریاض گل نے درخواستوں کو جرمانہ کے ساتھ مسترد کرنے کی استدعا کر دی،جس پر زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہاکہ میری ایک بھی التواء کی درخواست دکھا دیں میں ان کی جانب سے دی گئی دھمکیاں بتاؤں گا ، اپیل کنندگان اپنے گواہ لانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں ، عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کی ہدایات ہیں کہ تیس دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے، اس میں ورکنگ ڈیز کا ذکر نہیں۔
اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ میں نے حال ہی میں 4 دن کے اندر ٹرائل مکمل کیا، وکیل نے مزید کہا کہ ملزمان میں دو دو بار چالان کی کاپیاں تقسیم کی گئیں ، بشریٰ بی بی کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے بار بار طلب کیا گیا وہ پیش نہیں ہوئیں ، میں نے التوا کی درخواست دائر کی، وہ مسترد کردی گئی تو میں آج عدالت کے سامنے پیش ہوں ، دائرہ اختیار کا اعتراض تھا تو اس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ یا سیشن کورٹ میں اس کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
وکیل نے کہا کہ بار بار اس بات پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ فرد جرم بشریٰ بی بی کی موجودگی میں عائد نہیں کی گئی ، اس کو اگر دیکھیں تو کون بھاگ رہا تھا؟ تاخیری حربے کون استعمال کررہا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ جج صاحب نے کہا کہ بشریٰ بی بی اس وقت کورٹ میں موجود تھیں تو ان کی جانب سے کہا گیا کہ نہیں آئیں ، اس کے بعد عدالت نے جیل حکام سے ریکارڈ طلب کرلیا کہ وہ آئیں تھی یا نہیں، مزید کہا کہ کل سے میرے میمز بھی بنائے جا رہے ہیں۔
وکیل عثمان گل نے کہا کہ آپ کی میمز اس وجہ سے بنائی جا رہی ہیں کہ آپ پریس کانفرنس کے دوران لوڈو کھیل رہے تھے، ٹرائل کورٹ کے 16 جنوری اور 3 فروری کے آرڈرز بتائیں گے کہ ٹرائل کورٹ کے جج مینیجڈ تھے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
یاد رہے کہ 9 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔
8 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اہمیت رکھتا ہے، میں اس کی خلاف ورزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
واضح رہے کہ 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت میں جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے تھے کہ 12 جولائی تک ہر حال میں فیصلہ سنانا ہے۔