اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) طبلِ جنگ بج چکا ہے ، پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کیلئے مشکل وقت کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، وطنِ عزیز میں گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران ایسے افسوسناک مناظر دیکھے گئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے عسکر ی املا ک اور تنصیبات پر حملے کئے۔ پاکستان کے سب سے منظم اور طاقتور ادارے کیخلاف جو کچھ کیا گیا اس پر دشمن کی خوشی کا اندازہ عالمی میڈیا پر ہونے والی رپورٹنگ کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔
انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ صورتحال کے باوجود پاک فوج کی جانب سے انتہائی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا اور 24 گھنٹوں میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ردعمل جاری کیا۔ ریاست فیصلہ کر چکی ہے کہ جو کچھ گزشتہ چند گھنٹوں میں ہوا ہے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ اب اگر فوجی و سول تنصیبات اور املاک پر کسی بھی قسم کا مزید حملہ ہوا تو شدید ردعمل دیا جائے گا جس کی ذمہ داری حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں پر ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی دیگر قیادت کی گرفتاریوں کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے ۔ آنے والے چند گھنٹوں میں اس میں تیزی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ عسکری املاک پر حملہ کرنے والوں کیساتھ ان کا یا ان کی جماعت کا کوئی تعلق تھا۔ تحریک انصاف کی جانب سے ان حملوں کو ایک سازش قرار دیا گیا ہے مگر حکومت یہ دعویٰ ماننے کو تیار نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی جانب سے اعلیٰ عسکری عہدیداروں پر الزامات گزشتہ کئی ماہ سے نام لیے بغیر، ڈھکے چھپے الفاظ میں تو لگائے جارہے تھے، مگر چند روز قبل اس میں شدت آ گئی تھی۔
عمران خان نے پاک فوج کے ایک میجر جنرل کا نام لے کر ان پر اپنے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا، جس پر ترجمان پاک فوج نے عمران خان کے الزامات کو بے بنیاد اور نا قابلِ قبول قرار دیا۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ تاحال ان الزامات کے کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکے۔
عمران خان کی گرفتاری سے قبل اور بعد میں جو الزامات لگائے گئے اور کچھ جتھوں کی صورت میں عسکری عمارتوں پر حملے کئے گئے ریاست یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک منظم کارروائی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال میں نہ کرسکے وہ اس گروہ نے کر دکھایا ہے۔
پاکستان میں احتساب کے عمل کو اتنا متنازع بنا دیا گیا ہے کہ اب کوئی کسی کے حقیقی احتساب کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کیلئے صرف دوسرے کا احتساب جائز ہے۔عمران خان کے دور میں لیگی رہنما جبکہ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں تحریک انصاف احتساب کے عمل کو صرف انتقامی کارروائی قرار دیتی ہے، حالانکہ وہی احتساب عدالت نمبر ایک ، وہی جج محمد بشیر جو میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کیخلاف کیسز سنتے رہے ، وہی خواجہ حارث جو کرپشن کے الزامات میں پہلے نواز شریف کے وکیل تھے اور اب عمران خان کے وکیل ہیں۔ مگر احتساب کا یہ عمل درست ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
اگر عمران خان دور کے احتساب کا طریقہ کار درست تھا تو اس میں کوئی مختلف چیز نظر نہیں آتی بلکہ اس دور میں کسی بھی ملزم کو تین ماہ کے ریمانڈ پر نیب اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار رکھتی تھی۔ موجودہ حکومت نے نیب قانون میں ترمیم کر کے ریمانڈ کی مدت 14 روز کر دی۔
القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کیس میں الزام یہ ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی بیرون ملک منجمد رقم پاکستان کو ملنے کے بعد خفیہ معاہد ے کے ذریعے اسے فائدہ پہنچایا اور اس کے بدلے میں سوہاوہ کے قریب ساڑھے چار سو کنال زمین عطیہ کے طور پر یونیورسٹی ٹرسٹ کو دی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔
اس کیس میں عمران خان کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے ،مگر توقع کی جارہی ہے کہ 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پورا ہونے کے بعد اس میں مزید اضافے کی کوشش کی جائے گی۔ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی کہ جس کیس کو باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت التوا کا شکار کیا جارہا تھا ،اس میں فرد جرم عائد ہو گئی۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی لیگل ٹیم بڑی کمال مہارت سے فرد جرم کے مرحلے کو ٹالنے میں کامیاب ہو رہی تھی۔ فردِ جرم عائد کرنے کیلئے ملزم کا عدالت میں خود موجود ہونا لازمی ہوتا ہے۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوتے رہے اور فرد جرم کا مرحلہ ٹلتا رہا۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں کئی ماہ کیس چلنے کے بعد جب یہ معاملہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں آیا تو عمران خان کے وکلا کی جانب سے التوا لینے کی کوئی حکمت عملی کام نہ آئی۔ چیف کمشنر کی جانب سے اسلام آباد پولیس لائن کے گیسٹ ہاؤس کو عدالت ڈکلیئر کیا گیا اور اسی کمرہ عدالت میں توشہ خانہ اور القادر یونیورسٹی کرپشن کیس کی دو الگ الگ سماعت دو مختلف ججز نے کیں۔
عمران خان کو مجبوراً توشہ خانہ کیس میں پیش ہونا پڑا ، ان کی لیگل ٹیم کی جانب سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا گیا مگر عمران خان کی مجبوراً حاضری کے باعث وکلا کا بائیکاٹ بھی کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکا اور عدالت نے فرد جرم عائد کردی۔
توشہ خانہ وہ کیس ہے جسے پاکستان تحریک انصاف خود عمران خان کے سیاسی کیرئیر کیلئے خطرہ سمجھتی ہے۔ غلطی ہی سہی مگر عمران خان خود یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ توشہ خانہ سے جو قیمتی تحفے انہوں نے 2019ء میں حاصل کئے وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سالانہ مالی گوشواروں میں ظاہر نہیں کئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں شکایت کنندہ کے طور پر عمران خان کیخلاف کرپٹ پریکٹس کی درخواست دائر کی گئی جو منظور ہونے کی صورت میں عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فرد جرم کا اہم مرحلہ عبور ہونے کے بعد اب یہ کیس زیادہ طوالت اختیار کرتا نظر نہیں آرہا۔ یوں عمران خان کو جہاں آنے والے ہفتوں میں نا اہلی کیسز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہیں ان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث ان کی جماعت، رہنماؤں اور کارکنوں کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔