لاہور: (دنیا نیوز) وزیر اعظم شہبازشریف کی زیر صدارت حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق لاہور میں ہونے والے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، وزیر خارجہ بلاول زرداری، مریم نواز اور دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجلاس میں شریک حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے اہم فیصلے کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں، انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا، یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خودکش حملے کے مترادف ہو گی، سیاسی و آئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کی تاریخ پر عمران خان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے: مولانا فضل الرحمان
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی و آئینی بحران بنا دیا گیا ہے، معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امور کو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے، خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے، یہ آئین و قانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔
اجلاس میں شرکاء نے کہا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی تین کے مقابلے چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کر چکا ہے، چیف جسٹس اکثریتی پر اقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی سے روکنے کا کہا ہے، جسٹس قاضی فائز بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا سب پر لازم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات کیس، حکومتی اتحاد کا 3 رکنی بینچ کے بائیکاٹ کا فیصلہ
اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس اعجازالاحسن کا دوبارہ 3 رکنی بینچ میں شامل ہونا غیر منصفانہ ہے یہ عمل سپریم کورٹ کے طریقہ کار کی صریح خلاف ورزی ہے، سیاستدانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں لیکن سپریم کورٹ خود تقسیم ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس اور 3 رکنی بینچ کے دیگر جج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہو جائیں۔
اجلاس کے شرکاء نے حالیہ قانون سازی کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ ہوگا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کر دی ہے، پارلیمنٹ بالا دست ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے، ا مید ہے کہ صدر قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: فل کورٹ کا مطالبہ مضحکہ خیز، عدلیہ کے خلاف سازش لندن سے ہو رہی ہے: پرویز الہٰی
اعلامیے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان دے چکے ہیں، چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔
شرکاء نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طور پر سنیں، فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ "ون مین شو" کا تاثر ختم ہو، متنازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، یہ تاثر ختم کیا جائے کہ چند ججز پاکستان تحریک انصاف کے معاملے پر خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس کے شرکاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر بھی کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔