ملتان: (افتخار الحسن) پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی انتخابات میں اتنی طویل انتخابی مہم چلائی گئی ہو اور وہ بھی ضمنی انتخابات میں، تقریبا تین ماہ سے زائد کاعرصہ گزر چکا ،امیدوار میدان میں ہیں بلکہ اب تو تھک ہار کے دھیرے دھیرے عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے انتخابا ت کے التوا کے لئے دی جانے والی درخواست کو الیکشن کمیشن کی جانب سے خارج کر دیا گیا ہے اور 16 اکتوبر کو ہی ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 16 اکتوبر بالکل سر پر ہے اور اب کہیں جا کر امیدوار ایک غیر یقینی صورتحال سے نکل کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہو گئے ہیں اور انتخابی مہم کے ان آخری ایام میں اپنے حمایتیوں میںجوش پیدا کرنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
ملتان کے حلقہ این اے 157 میں کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے اور شاید ان ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ بھی یہی ہوگا ۔یہاں سیاسی جماعتوں سے زیادہ ملتان کے دو بڑے مخدومین کے مابین مقابلہ ہوگا۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید علی موسیٰ گیلانی پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں جبکہ تحریک انصاف سے سابق وزیر خارجہ کی صاحبزادی مہر بانو قریشی مدمقابل ہیں۔ یہ حلقہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا آبائی حلقہ ہے اور اس حلقے سے مخدوم شاہ محمود قریشی متعدد بار کامیاب ہوئے ہیں۔ اب بھی عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی منتخب ہوئے تھے۔
ضمنی انتخاب پی پی 217 میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے پر ان کو یہ نشست چھوڑنی پڑی جس پر اب مہر بانو قریشی امیدوار ہیں۔ اس حلقہ سے علی موسیٰ گیلانی بھی تیسری بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کوایک بار کامیابی جبکہ دوسری بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں مخدومین کی جانب سے ریکارڈ خرچہ کیا گیا ہے اور اپنی جیت کیلئے تمام تر جتن کئے جارہے ہیں اور ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ مقابلہ دراصل دونوں مخدومین کی بقاء کی جنگ ہے۔ مہر بانو قریشی کو مخدوم شاہ محمود قریشی نے پہلی بار سیاست میں متعارف کروایا ہے بلکہ قریشی خاندان میں یہ کسی بھی خاتون کا سیاست میں پہلا نام ہوگا جوکہ خواتین کیلئے حوصلہ افزا بات ہے۔
جنوبی پنجاب میں خواتین کا سیاست میں رجحان بہت کم ہے ،مہر بانو قریشی کے سیاست میں آنے سے خواتین کو بڑا حوصلہ ملے گا۔ مہر بانو قریشی نے صحافت میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور سیاست کو بڑے اچھے طریقے سے جانتی ہیں بلکہ یوں کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مہر بانو قریشی مخدوم شاہ محمود قریشی کی سیاسی وارث بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
مہر بانو قریشی کیلئے بلے کا نشان بھی بھرپور مددگار ثابت ہو گا حالانکہ موجودہ الیکشن اس حوالے سے بھی قریشی خاندان کیلئے مشکل ہے کہ زین قریشی نے عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر رکھا اور حلقہ میں ترقیاتی کام بھی قابل ذکر نہ کر سکے ۔ ملتان وہاڑی روڈ چار سال گزرنے کے باوجود شروع نہ ہوسکا جہاں روزانہ کی بنیاد پر حادثات سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے جبکہ اسی حلقے میں ساڑھے تین سال زین قریشی ایم این اے رہے ،مخدوم شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے ،پارٹی کے وائس چیئرمین ہونے کے باوجود وہ قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھاسکے۔
اسی طرح علی موسیٰ گیلانی جن کو حلقہ کے عوام ’’1122‘‘ بھی کہتے ہیں وہ شکست کے باوجود حلقہ کے عوام سے رابطے میں رہے اور خود سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا اپنا ایک مقام ہے، حالانکہ تیر کا نشان خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اب پنجاب میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ مقابلے میں آنے کیلئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ البتہ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ تیر کا نشان ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے مقابلے میں کانٹے دار مقابلہ کی توقع بھی گیلانی خاندان کی کامیابی ہے،ورنہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں تحریک انصاف کے مقابلے میں اس طرح سخت اور کانٹے دار مقابلہ میں لانا انتہائی مشکل کام تھا۔ مہر بانو قریشی اور علی موسیٰ گیلانی کے درمیان گھمسان کی جنگ ہے ،جیت یاہار معمولی فرق سے ہو سکتی ہے ۔ کسی کی بھی جیت کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔