اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ کے مطالبے پر ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم یکطرفہ فیصلہ نہیں کرسکتے، تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں، یہ کیس ہمارے آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون اور دیگر چھ سابق صدور نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی، لطیف آفریدی نے روسٹرم پر کہا کہ ملک میں بحران بڑھتا جارہا ہے ،پورا سسٹم داؤ پر لگاہوا ہے۔ عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جس قانونی سوال پر سماعت ہو رہی ہے وہ کیا ہے، معاملہ شایدپارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے،پہلے فیصلہ دینے والے ججز ہی کیس سن رہے ہیں جس وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی سپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نکتے کا حوالہ دیا وہ بتائیں، پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں ، کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے جواب دیا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا، پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہی نکتہ ہے۔ چیف جسٹس نے فل کورٹ کی تشکیل کے مطالبے پر ریمارکس دیئے کہ ہم یکطرفہ فیصلہ نہیں کرسکتے، تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں۔
ہائی پروفائل کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے اطراف سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ اور ریڈ زون کی سکیورٹی بڑھا دی ہے، سیاسی کارکنوں کو کسی صورت سپریم کورٹ تک رسائی نہیں دی گئی۔ ریڈ زون میں داخلہ آفس کارڈ کی بنیاد پر ہی دیا جائے گا ، ریڈ زون میں قیدی وین اور واٹر کینن بھی ریڈ زون میں رکھا جائے گا۔
دوسری جانب ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے معاملے پر حکومتی اتحادیوں نے فل کورٹ کے لئے پٹیشن دائر کر دی ہے، درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔