اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے درمیان عدم اعتماد تحریک پر اتفاق ہو گیا۔
وزیراعظم عمران خان کےخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اور امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کی سابق صدر آصف زرداری سے زرداری ہاﺅس اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی، پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ، نوید قمر، احسن اقبال، رانا ثنااللہ، پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، مرتضیٰ وہاب اور مریم اورنگزیب نے شرکت کی۔
اجلاس ختم ہونے کے بعد اکرم درانی نے مختصراً صحافیوں کو بتایا کہ آئندہ ایک دو روز میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا، تھوڑی تسلی رکھیں، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تاریخ کا فیصلہ جلد کیا جائےگا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ فون پہلے آئے تھے نہ آب آئے ہیں۔ آج لیگل ماہرین بیٹھے تھے انہوں نے عدم اعتماد پر غور کیا ہے۔ تین بڑے الگ بیٹھے تھے، انہوں نے آپس میں بات کی ہے۔ قانونی ماہرین غور کررہے ہیں وہ کام کررہے ہیں ۔ کل بلاول صاحب بھی آئیں گے۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جو فیصلہ ہوا ہے اس حوالے سے قائدین آگاہ کریں گے۔
اجلاس میں آصف علی زرداری نے اپوزیشن رہنماوں کو پیپلز پارٹی کے کے لانگ مارچ کے آخری مرحلے میں شرکت کی دعوت دی۔
دوسری جماعتوں کو توڑنے کی کوشش کرنیوالا اپنے اراکین کی منتیں کر رہا ہے: مریم
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی طاقت استعمال کر کے دوسری جماعتوں کو توڑنے کی کوشش کرنے والے کا ایک ایک لمحہ اراکین کی منتیں کرنے میں گزر رہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹ میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے کہا کہ کل کیا ہو گا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات جانتی ہے مگر عمران خان کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے وہ مکافات عمل کے سوا کچھ نہیں۔ کرسی، طاقت کا غلط استعمال اور اس کو دائمی سمجھ لینے والے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور حکومت بھی آنی جانی چیز ہے مگر تکبر اور ظلم انسان کے آگے آتا ہے۔ نواز شریف صاحب پر یہ انکی ذاتی و سیاسی زندگی کا شاید مشکل ترین وقت تھا مگر بدترین حالات کے باوجود انکا کوئی ساتھی انھیں چھوڑ کر نہیں گیا۔ کیونکہ انہوں نے ہر کسی کو عزت دی۔ اپنے مخالف اور دشمن کو بھی۔ صبر اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا۔ طاقت کا رعب نہیں جمایا، دھمکیاں نہیں دیں، تمسخر نہیں اڑایا۔ کرسی جاتی دیکھ کر میں چھوڑوں گا نہیں جیسی بازاری زبان استعمال نہیں کی۔ عمران خان کو دیکھ کر عبرت ہوتی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ تکبر اور گھمنڈ کا پہاڑ آج جب ان لوگوں کے در پر حاضری دے رہا ہے جن سے ہاتھ ملانے کو وہ اپنی توہین سمجھتا تھا تو زندگی اور سیاست کے طالبعلم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ن لیگ کی نائب صدر نے کہا کہ 4 سال عوام کی طرف سے مجرمانہ بے حسی اور غفلت برتنے والے مہنگائی اور نااہلی سے انکی زندگیاں تباہ کرنے والے کو آج اچانک جلسوں میں روتا دھوتا دیکھ کر جھرجھری آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی طاقت استعمال کر کے دوسری جماعتوں کو توڑنے کی کوششش کرنے والے کا ایک ایک لمحہ اب اراکین کی منتیں کرنے میں گزر رہا ہے اور انھی حکومت بھی اسکی ہے! یہ سب مکافات عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ انسان کو انسان نا سمجھنے والے کا یہی انجام ہے، مجھ سمیت سیاست اور زندگی کے طالب علم ضرور غور کریں۔
مریم نواز نے ٹویٹر پر لکھا کہ خان صاحب نے صرف مخالفین کو ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کو گالیاں اور دھمکیاں دیں۔ اپنی سیاسی مخالفت میں پاکستان کا نقصان کرنے کا اختیار انکو کس نے دیا؟
تحریک عدم اعتماد
واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ ماہ 11فروری کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ہم اس ناجائز حکمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے کہ وہ اپنا اتحاد ختم کریں۔
گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آصف زرداری، بلاول زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ان کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر پر ملاقات کی تھی جبکہ ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعےملاقات میں شرکت کی تھی۔
پی پی پی رہنماؤں کی آمد سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے اراکین کی تعداد سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔
اپوزیشن کا اقدام کامیاب ہونے کی صورت میں پی پی پی چیئرمین بلاول پہلے ہی شریف خاندان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ ان کی پارٹی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی برطرفی نئے انتخابات کی راہ ہموار کردے گی۔
نمبر گیم صورتحال
وزیر اعظم عمران خان كے خلاف ممكنہ تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كے امكانات جاننے كے لیے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں كے اراكین یا حكومتی اور حزب اختلاف كی نشستوں كی تعداد معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔
سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔
پاكستان میں وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق 5، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان 7، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3، عوامی مسلم لیگ 1، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جمہوری وطن پارٹی 1 اور دو آزاد اراكین اسمبلی كی حمایت حاصل ہے۔
حكومتی اتحاد كے برعكس اپوزیشن كی نشستوں پر براجمان اراكین اسمبلی میں مسلم لیگ ن 84، پیپلز پارٹی 56، متحدہ مجلس عمل پاكستان 15، عوامی نیشنل پارٹی 1 ، بلوچستان نیشنل پارٹی 4 اور دو آزاد شامل ہیں۔
یوں 341 اراكین پر مشتمل قومی اسمبلی میں حكومتی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے ایم این ایز كی تعداد 179 ہے، جبكہ 162 اراكین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچز كا حصہ ہیں۔