اسلام آباد: (دنیا نیوز)پانامہ پیپرز کے بعد نئے مالیاتی سکینڈل 'پنڈورا پیپرز' کی ہوشربا تفصیلات جاری کردی گئی ہیں جس کے مطابق700سے زائد پاکستانی بے نقاب ہوگئے ،جن میں پاکستان سے شوکت ترین،مونس الہیٰ،شرجیل میمن،عبدالعلیم خان،فیصل واوڈا،اسحاق ڈارکے بیٹے علی ڈار،شعیب شیخ،سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے کا نام شامل ہے جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ بھی آف شور کمپنی کے مالک نکلے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی دنیا میں ہلچل مچانے والے پانامہ پیپرز کی طرز پر ایک اور عالمی سکینڈل پنڈورا پیپرز کی تفصیلات جاری کردی گئی ہیں،ان تفصیلات کےمطابق 700سے زائد پاکستانی بے نقاب ہوگئے ہیں جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین ،مونس الہیٰ ،علیم خان اور فیصل واوڈا قابل ذکر ہیں جبکہ دیگر میں خسرو بختیارکے بھائی عمر بختیارعارف نقوی،راجہ نادر پرویز،محمد علی ٹبہ،میر خالد آدم، کچھ کاروباری اور بینکاری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔
پاک فضائیہ کےسابق سربراہ عباس خٹک کے2 بیٹوں کےنام آف شور کمپنیاں نکل آئیں جبکہ جنرل(ر)خالد مقبول کے داماداحسن لطیف،کاروباری شخصیت طارق سعیدسہگل،جنرل (ر)شفاعت اللہ کی اہلیہ کے نام شامل ہیں۔
عمر بختیار نے آف شور کمپنی کے ذریعہ ایک ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ اپنی والدہ کے نام پر منتقل کیا،عمر بختیار نے 2018 میں لندن کے علاقے چیلسی میں اپارٹمنٹ والدہ کے نام پر منتقل کیا۔ پاکستانی شخصیات میں شوکت ترین اور ان کے خاندان کے نام 4آف شور کمپنیاں نکلی ہیں ۔
علیم خان کی 1،شرجیل میمن کی 3،علی ڈار کی 2،مونس الٰہی کی2،فیصل واوڈا کی ایک آف شور کمپنی نکلی ہے۔
غیر ملکی شخصیات
یوکرین ،کینیا، اور ایکواڈور کے حکمرانوں ،اردن کےبادشاہ عبداللہ اورقطر کےحکمرانوں کے نام پر بھی آف شور کمپنیاں نکل آئیں جبکہ چیک ری پبلک اورلبنان کےوزرائےاعظم آف شورکمپنیوں کےمالک ،سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کےنام بھی آف شورکمپنی ،کچھ کاروباری شخصیات اور بینکاروں کے نام پر بھی آف شور کمپنیاں نکل آئیں جبکہ گلوکارہ شکیرا، سابق بھارتی کرکٹرسچن ٹنڈولکر کےنام بھی آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہے ، روس اور آذربائیجان کےصدور، برطانوی ہاؤس آف کامن کے لیڈر جیکب ریز موگ کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے۔
دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم ، آذربائیجانی صدر کے بچے، سابق بحرینی وزیر اعظم شیخ خلیفہ بن سلمان کے نام پر بھی آف شور کمپنیاں نکلیں جکبہ پانامہ کے تین سابق صدور کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں سامنے آگئے ہیں۔
یہ تفصیلات آئی سی آئی جے نے گیارہ اعشاریہ 9ملین دستاویزات شائع کرکے جاری کی ہیں۔ اس عالمی تحقیقات میں 117 ممالک کے 600 صحافیوں، 150میڈیا تنظیمیوں نے حصہ لیا۔
آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز کے نام سے پروجیکٹ میں 117 ممالک کی اہم شخصیات کی مالی تفصیلات شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات میں پاکستان کے بھی دو صحافی شامل ہیں، پنڈورا پیپرز میں کئی پاکستانی شخصیات کی مالی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پانامہ لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔
ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ اس وقت کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا۔
پانامہ پیپرز کیا ہیں؟
بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔
فائل سے معلوم چلتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔ ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔
ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے حاصل کیے، جس نے انھیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیا۔
یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔
بی بی سی کو دستاویزات کو لیک کرنے کے ذرائع کی شناخت کا علم نہیں ہے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔
ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔