لاہور: (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن نے وفاقی وزراء کے بیانات کے بعد فواد چودھری اور اعظم سواتی کو نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے وزراء کے بیانات پر رد عمل دیتے ہوئے وفاقی وزراء اعظم سواتی، فواد چودھری کے الیکشن کمیشن پر لگنے والے الزامات مسترد کریئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی سے الزامات کے ثبوت مانگ لیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے وفاقی وزراء فواد چودھری اور اعظم سواتی کو نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نوٹس کے بعد کاروائی کرے گا، الیکشن کمیشن نے پیمرا سے بھی وزراء کے الزامات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ ریکارڈ سامنے لانے کے بعد مزید کاروائی کی جائے گی۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس آیا تو تفصیلی جواب دیں گے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹس بھجوانے کے فیصلے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر د عمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا احترام اپنی جگہ لیکن شخصیات کے سیاسی کردار پر بات کرنا پسند نہیں تو اپنا کنڈکٹ غیر سیاسی رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی طرف سے نوٹس آیا تو تفصیلی جواب دیں گے، بحیثئت ادارہ الیکشن کمیشن کی حیثئت مسلمہ ہے لیکن شخصیات غلطیوں سے مبرا نہیں اور تنقید شخصیات کے کنڈکٹ پر ہوتی ہے ادارے پر نہیں۔
واضح رہے کہ 10 ستمبر کو مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان، وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا تھا کہ شاہدخاقان عباسی اینڈ کمپنی سارے معاملے کو متنازع بنا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے الیکشن کمیشن اس وقت اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹربن گیا ہے۔ الیکشن کوشفاف بنانے کے لیے ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن کی منطق عجیب وغریب ہے۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ آج الیکشن کمیشن کا رویہ،پارلیمان کے استحقاق کوٹھکرانے کے مترادف ہے، بدقسمتی سے اپوزیشن کے بونوں کی سوچ اپنے کیسزمیں تاریخ لینے تک محدود ہے، اگرپارلیمنٹ مضبوط ہوگی توملکی سیاست بہترہوگی۔ 2018کے الیکشن میں عوام نے عمران خان پراعتماد کا اظہارکیا، تحریک انصاف کے منشورمیں الیکشن کوشفاف بنانے کا وعدہ تھا، عمران خان کی واحد حکومت ہے جس نے شفاف الیکشن کے لیے تجاویز پیش کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون الیکشن کمیشن نہیں، قانون بنانے کا اختیارپارلیمان کے پاس ہے، چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں، چیف الیکشن کمشنر نواز شریف سے قریبی رابطے میں رہے ہیں، ان کی نوازشریف سے ذاتی ہمدردی بھی ہوسکتی ہے۔ اگرہمیں چیف الیکشن کمشنرپراعتماد نہیں تووہ الیکشن کیسے کرائیں گے، چیف الیکشن کمشنرچھوٹی، چھوٹی جماعتوں کے آلہ کارنہ بنیں، ای وی ایم پراحمقانہ ابجکشن اورسیاست کی، اگراس طرح سیاست کریں گے توپھررسپانس آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے الیکشن کے طریقہ کارکا جائزہ لیا گیا، ہم نے اپوزیشن کو الیکشن اصلاحات پر دعوت دی، جہاں اپوزیشن ہار جاتی ہے وہاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ عدالت نے کہا الیکشن کمیشن پر لوگوں کواعتماد نہیں ہے، پوری دنیا کے الیکشن کے طریقہ کارکا جائزہ لیا گیا، ہم نے اپوزیشن کوالیکشن اصلاحات پردعوت دی، جہاں اپوزیشن ہارجاتی ہے وہاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013کے انتخاب کے بعد عمران نے پہلی تقریرمیں کہا چارحلقوں کوکھولیں، عمران خان کی تقریرپرکوئی دھیان نہیں دیا گیا تھا، عمران خان نے بہت بڑی تحریک کا آغازکیا تھا، جسٹس ناصرالملک صاحب نے تمام جماعتوں کوسن کرریمارکس دیئے پاکستان میں منصفانہ انتخابات کا طریقہ کارسوفیصد موجود نہیں۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر قومی اسمبلی میں 8 ماہ میں بل منظور کیا گیا مگر اپوزیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات پر ایک بھی تجویز سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ریفارم کی دشمن ہے، 90 دن میں قومی اسمبلی سے پاس بل سینیٹ سے منظور ہونا ہوتا ہے، بدھ کو ہم قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گے، ہم نے انتخابی اصلاحات کےبل کو مشترکہ اجلاس میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے، 13ستمبر کو صبح 11 بجے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلارہے ہیں۔