راولپنڈی: (دنیا نیوز) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جمہوریت میں پاکستان کی مضبوطی اور بقا ہے، اسے مزید مستحکم کرنے کیلئے ہم سب کو آئین کی پاسداری، انصاف، برداشت اور بردباری کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تنقید برائے تنقید، نفرت اور عدم برداشت جیسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنا ہے تو ہمیں اپنی انا اور ذاتی مفاد کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یوم دفاع وشہداء کی تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ دفاع وطن ایک مقدس فرض ہے جو ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ شہدا کے لواحقین اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ آپ کے پیاروں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ آج کی تقریب کا واضح مقصد ہے کہ ہم اپنے شہدا کو نہیں بھولے۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی ترقی کا خواہشمند ہے۔ وہاں کی عوام نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ پاکستان کے عوام افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ افغانستان میں تمام فریقین کی نمائندہ حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ کشمیریوں کی سیاسی وسفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ہر آزمائش میں ثابت کیا کہ پاک فوج ہر چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی اور مادر وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے۔ ہمیں اندرونی طور پر انتشار پھیلانے والے عناصر کیساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا۔ اس عظیم ملک کی ذمہ داری ہمیں ہر حال میں مقدم ہے۔ ہماری وطن سے محبت تمام ذاتی گروہی، لسانی ونسلی تعصبات سے بالاتر ہے اور یہ کہ پاکستان کی حفاظت، امن اور ترقی کے جاری سفر کیلئے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کسی بھی قسم کی اندرونی وبیرونی خطرات، روایتی وغیر روایتی جنگ اور ظاہری اور پوشیدہ دشمنوں سے لڑنے کیلئے تمام صلاحیتوں سے لیس ہیں۔ اگر کوئی دشمن ہمیں آزمانا چاہتا ہے تو وہ ہر لمحہ اور ہر محاذ پر ہمیں تیار پائے گا۔ الحمدللہ آج ہمارا شمار دنیا کی عظیم افواج میں ہوتا ہے۔ ہم نے ہر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تمام اندرونی و بیرونی سازشوں کو ناکام بنایا، سب سے بڑھ کر یہ کہ دفاعی قوت میں خود انحصاری حاصل کرکے ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج اور قوم کا رشتہ وہ مضبوط ڈھال ہے جس نے پاکستان کیخلاف دشمن کی تمام چالوں اور ہتھکنڈوں کو ہمیشہ ناکام بنایا اور اسی یکجہتی نے ہمیشہ ہر مشکل میں سرخرو کیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یہاں یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ عوام کے تعاون کے بغیر کوئی بھی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے جیسے کہ ہم نے اپنے ہمسایہ ملک میں دیکھا، اس لئے فوج کی کامیابی بڑی حد تک عوام کی حمایت پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ موجودہ دور میں جنگ کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب براہ راست حملے کی بجائے کسی قوم کی یکجہتی اور نظریاتی سرحدوں کو کمزور اور اس کے مختلف طبقات میں انتشار پھیلانے اور شہریوں کے حوصلے پست کرنے کیلئے دیگر حربوں کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی اور کمیونی کیشن کے ذرائع کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے دشمن بھی غیر روایتی ہتھکنڈوں بشمول پروپگینڈہ اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بیرونی دشمنوں کے تمام حربوں اور چالوں سے تو آگاہ ہیں، مگر ہمیں اندرونی انتشار پھیلانے والے کچھ عناصر کیساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا۔ ہم سب کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کچھ لوگ ملک دشمن عناصر کے ہاتھ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کو عرف عام میں ہائبرڈ وار کہا جاتا ہے جس کا مقصد پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ ہم انشا اللہ ان منفی عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گ۔ے
انہوں نے کہا کہ ایسی مشکل اور پیچدہ صورتحال افواج پاکستان اور قوم کی باہمی اعتماد اور اخوت اور محبت کے رشتے کو اور بھی مضبوط کرنے کی متقاضی ہے۔ یہ حقیقیت بھی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہونی چاہیے کہ اس ارض پاک پر کسی پرتشدد رویے یا انتہا پسندی کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں، طاقت کا استعمال صرف اور صرف ریاست کا اختیار ہے۔
آرمی چیف نے واضح کیا کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ کسی فرد یا گروہ کو اسلحے کی نمائش یا استعمال کی اجازت نہیں ہوگی، کسی شخص یا گروہ کو علاقائیت، لسانیت، نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ریاست کو بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم سب نے مل کر پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوچ کے مطابق اعتدال پسند، پرامن اور ایک جدید اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا ہے۔