لاہور: (خصوصی ایڈیشن) 1965ء میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہماری قوم الرٹ کھڑی ہوئی، جب دشمن نے زبردستی ہم پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ پوری قوم اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت سے جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔
17روزہ اس پاک بھارت جنگ میں ہر فرد نے اپنا کردار ادا کیا جس میں ہماری مسلح اور بہادر افوا ج نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ 1965ء میں پاکستان کو ایک گھنائونی سازش سے واسطہ پڑا۔ 4ستمبر 1965ء کی شام کوامریکہ سے پیغام ملا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
بظاہر ایسی صورت حال بھی نہیں تھی کہ جنگ چھڑ جائے لیکن کسی نے اس امریکی پیغام کی طرف توجہ نہ دی اس طرح دراصل پاکستان کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی گئی ۔اطلاعات و ابلاغیات جدید دور جیسے نہیں تھے جس سے دشمن کی حرکات و سکنات کا پتا لگایا جاتا۔
چھ ستمبر 1965ء کو علی الصبح بھارت نے بغیر بتائے لاہور پر حملہ کر دیا۔ دشمن پوری تیاری کے ساتھ لاہور پر قبضہ کرنا چاہتا تھا ۔اس وقت سرحدی علاقوں میں اتنی آبادیاں بھی قائم نہ تھیں۔
برکی روڈ دراصل ہری پور روڈ کہلاتا تھا۔ یہ بھارت میں ایک قصبے کا نام بھی ہے۔ اسی ہری پور روڈ پر پاک بھارت بارڈر گونڈی ہے جو برکی کے قصبہ سے 11 کلومیٹر دور ہے۔ برکی ایک تاریخی قدیم گاؤں ہے جو بی آر بی نہر کے کنارے پاکستانی علاقے میں واقع ہے۔
بھارتی فوجیوں نے پہلے گونڈی پر حملہ کیا۔ ہماری فوج ہر حملے کا جواب دینے کے لئے تیار تھی۔ حملے کی صورتحال اس وقت یکسر بدل گئی جب پاک فوج کے بہادر جوانوں نے ان مکار حملہ آوروں کو واپس بھگایا۔
ہمیں حیرانی اس وقت ہوئی جب پوری دنیا کے ریڈیو سٹیشنز خبریں دینے لگے کہ بھارتی ریڈیو آکاش وانی نے لاہور پر قبضہ کی خبر دی ہے کہ بھارتی فوج لاہور کے جم خانہ میں چائے پیئے گی۔ لیکن ہماری فوج نے یہ حملہ ناکام بنا دیا۔
برکی گاؤں سے گونڈی بارڈر کی طرف جائیں تو تقریباً 6 کلومیٹر پر بائیں جانب ہڈیارہ گاؤں ہے اور سڑک کی دائیں جانب پیپل کا بہت بڑا قدیم درخت ہے جس کی اوٹ میں مورچہ بنا کر اللہ کے عظیم سپاہی میجر شفقت بلوچ نے دشمن پر کئی وار کئے۔
میجر شفقت بلوچ بے حد نڈر فوجی افسر تھے۔ انہوں نے ایک بار اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ چند ساتھیوں کے ہمراہ بیسیوں بھارتی فوجیوں کا کئی گھنٹے مقابلہ کرتے رہے۔
انہوں نے اپنے چند جری جوانوں کو دور دور کھڑا کر کے فائر کئے۔ دشمن یہ سمجھا کہ الگ الگ علاقوں سے فائر آ رہے ہیں۔ کافی پاکستانی فوجی پہنچ گئے ہیں۔
میجر شفقت خود بھی زخمی ہوئے لیکن اس کے باوجود مقابلہ جاری رکھا۔ بھارتی فوجیوں کو مزید کمک پہنچ گئی وہ سینکڑوں کی تعداد میں حملہ آور ہوئے اور یلغار کر دی۔
برکی، ہڈیارہ، پڈانہ، رام پورہ اور کئی ایک پاکستانی سرحدی گاؤں پر قابض ہو گئے۔ میجر شفقت بلوچ کمال مہارت سے اپنے ساتھیوں کو زندہ سلامت واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹانگ میں پیوست گولی مرتے دم تک ان کے ساتھ رہی۔
بھارت نے کشمیر، سیالکوٹ، سیکٹر جونڈھ کا محاذ، گنڈا سنگھ، قصور، فاضلکا سیکٹر میں حویلی لکھا سیکٹر، راجھستان غرضیکہ جہاں جہاں ان کا بس چلا وہاں سے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
اس بھرپور حملے سے پورے ملک میں ہل چل مچ گئی اور پاکستان 1965ء دفاعی جنگ میں مصروف کار ہوگیا۔ بھارتی ائیر فورس نے راولپنڈی، کراچی، ڈھاکہ اور چند ایک دیگر مقامات پر شہری علاقوں پر بمباری کی۔
پورے ملک میں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگی۔ ریڈیو اور لاؤڈ سپیکرز پر ملی ترانے گونجنے لگے۔ شہری دفاع سائرن بجاتا تھا تو لوگ مورچوں میں جانے کی بجائے گھروں سے باہر نکل آتے تھے۔ رات پورے ملک میں بلیک آئوٹ کیا جاتا تھا کوئی موم بتی بھی نہیں جلاتا تھا۔
پاکستانی مسلح افواج نے شیر کی طرح انگڑائی لی اور ہرمحاذ پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ کھاریاں چھاؤنی سے فوجی دستے لاہور کی جانب چل پڑے۔ پاکستان ائیر فورس عقاب کی طرح جھپٹنے کو تیار ہو گئی۔
پاکستان بحریہ بھی کمر بستہ ہو گئی۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے قوم سے ولولہ انگیز خطاب کیا جس سے افواج پاکستان اور عوام میں جذبہ حب الوطنی اور ایمانی طاقت اجاگر ہو گئی۔ خدا کی مدد شامل حال ہوئی عوام میں کمال کا اتحاد تھا۔
اپوزیشن نے بھی حکومت کا بھر پورساتھ دیا۔ ایمانی او رروحانی جذبہ حب الوطنی امڈ آیا۔ بچہ بچہ مرمٹنے کو تیار ہوگیا نوجوان بے تاب تھے کہ ہم فوج میں بھرتی ہوں۔اور تیزی سے بھرتی بھی ہوئی۔
عوام نے دل کھول کر افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ چونکہ بھارت پر جنگی جنون طاری تھا اس نے بری بحری اور ہوائی محاذ پر جنگ چھیڑ کر ایک ایسی قوم کو للکارا تھا جو وطن کے لازوال دفاع کے لئے جان چھڑکنے کے لیے تیار تھی۔دشمن کو ہر جگہ منہ کی کھانا پڑی۔
1965ء میں پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل نور خاں تھے جنہیں اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نواز تھا۔ پاکستانی سکواڈرن لیڈر لڑائی کے لئے بے قرار تھے۔ اس عظیم ائیر مارشل کی سربراہی میں پاک ائیر فورس نے کمال فن کا مظاہرہ کیا اور سترہ روزہ اس جنگ میں بری فوج کی بھرپور مدد کی۔
دشمن کے 129 لڑاکا جنگی طیاروں کو تباہ کیا جبکہ پاکستان کے صرف 19 جنگی طیاروں کو نقصان پہنچا۔ 7 ستمبر 1965ء کو پاک ائیر فورس کے بہادر نڈر اور ماہر سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) کا ایک ریکارڈ ہے۔
پاک ائیر فورس کے بہادر سکوارڈرن لیڈر سیسل چودھری، سرفراز رفیقی، ظفر احمد چودھری اور دیگر کئی ایک نے بھارت کے ہوائی اڈے پلواڑہ، جودھپور، آگرہ پر بار بار بمباری کی۔
ائیر فورس کے جنگی جہاز سرگودھا ائیر بیس سے اڑتے تھے اور آگرہ دہلی بمبئی اور دیگر بھارتی ہوائی اڈوں پر تباہی مچا دیتے تھے۔ بھارت پریشان تھا کہ کس قوم کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔ پاک ائیر فورس کو جب بھی اطلاع ملتی پلک جھپکتے دشمن پر جھپٹ پڑتی۔
مختلف شہروں میں خصوصاً زندہ دلان لاہور بے خوف گھروں سے باہر نکل آتے اور ڈاگ فائٹنگ دیکھتے کہ کس طرح دشمن کے جنگی جہازو ں کو مار گرا یا جاتا ہے۔
ہمارے برادر اسلامی ہمسایہ ملک ایران نے ائیر فورس کی بے حد مدد کی پانچ ہزار بیرل سے زیادہ تیل مفت مہیا کیا۔ تہران میں پاک طیاروں کو ٹھہرنے کے لئے پینگر بھی مہیا کئے۔ واہگہ، اٹاری اور برکی سے آگے گونڈی مارڈر سے بھارتی بری فوج ٹینکوں کی یلغار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن اللہ کی بھرپور مدد سے دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔
دشمن چاہتا تھا کہ جی ٹی روڈ کو کاٹ سکے تا کہ لاہور اور راولپنڈی کاآپس میں زمینی رابطہ کٹ جائے لیکن ہماری بہادر مسلح افواج نے ان کی یہ حرکت پوری نہ ہونے دی اور واپس بھگا دیا۔
سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کے محاذ پر دنیا بھر میں جنگوں کی تاریخ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی ۔ پاک فوج نے یہاں بھی بھارت کو عبرت ناک شکست دی اور ان کے کئی ٹینک تباہ کر دئیے۔
پاک فوج نے فاضلکا سیکٹر ہیڈ سلیمانکی پر کئی میل اندر تک قبضہ کر لیا۔ راجستھان میں بھی کئی میل علاقے پر قبضہ کیا۔ برکی محاذ پر میجر شفقت بلوچ کے بعد 8 ستمبر کو میجر راجہ عزیز بھٹی کو 34 ساتھیوں کے ہمراہ بھیجا گیا کہ وہ دشمن کو بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر چند گھنٹے روکے۔
میجر عزیز بھٹی بی آربی نہر عبور کر کے دور تک اندر چلے گئے جہاں دشمن کے سینکڑوں فوجی موجود تھے۔ میجر صاحب نے دشمن کا حملہ بری طرح ناکام بنا دیا۔دشمن نے گنڈا سنگھ والا، قصور، سیالکوٹ سیکٹراور راجھستان سیکٹر سمیت کئی محاذ کھولے مگرہر جگہ شکست کھائی۔
ائیر مارشل نور خاں پاک فضائیہ کے سربراہ تھے ان کی سرپرستی میں ائیر فورس نے دنیا کی بہتر ائیر فورس ہونے کا ثبوت دیا اور دشمن کو ہر محاذ پر عبرت ناک شکست دی۔
وائس ایڈمرل اے آر خاں 1965ء میں پاک بحریہ کے کمانڈر انچیف تھے۔ ان کی سربراہی میں پاک بحریہ نے دشمن کو اس کے اپنے علاقے میں توپخانے کی مدد سے روکے رکھا۔ بلکہ پاک بحری آب دوز کئی روز تک بھارت کے سمندر میں چھپی رہی۔ بھارتی ساحلی علاقے میں توپخانے کی بے شمار توپیں نصب تھیں اس کے باوجود پاک بحری آب دوز غازی نے بھارت کے اندر جا کر تباہی مچادی دوارکا کا مضبوط بحری اڈہ تباہ کر دیا۔
بلکہ دشمن کے راڈار سسٹم اور دیگر فوجی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔اب 2019ء ہے پھر ستمبر آگیا ہے بھارت کو اپھارہ ہوا ہوا ہے۔ اسے اندازہ نہیں ہے کہ اب پاکستان ایٹمی طاقت ہے ہزاروں ٹینکوں اور جدید اسلحہ سے لیس ہے جدید جنگی طیارے ائیر فورس کے پاس ہیں جنہیں چلانے والے اللہ کے سپاہی پائلٹ اور سکواڈرن لیڈر ایمانی طاقت سے سر شار ہیں۔
دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج