لاہور: (دنیا نیوز) لاک ڈاؤن کے حوالے سے پاکستان کی واضح پالیسی نہ ہونے سے ملک میں کورونا بے قابو ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کی کنفیوژن سے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے، کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے کیسز میں کمی ہوئی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اسے اشرافیہ نے لگوایا۔
مہلک وبا پھیلتے ہی دنیا بھر میں حکومتوں نے واضح پوزیشن لی، مگر ہماری سرکار کنفیوژن کا شکار رہی، آج تک نت نئے بیانات دیئے گئے لیکن اقدامات صفر رہے۔
ہمارے حکمرانوں پہلے کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے کا کھیل کھیلا، پھر آپس میں لڑنے لگے۔ سب سے زیادہ پینترے وزیراعظم عمران خان نے بدلے۔ کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن اشرافیہ نے لگوایا، کبھی کہتے ہیں ہم نے لگایا، کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا کم پھیلا اور جانی نقصان باقی ممالک سے کم ہے۔
جب کپتان ہی جم کر نہ کھیل رہا ہو تو ٹیم بھی لڑ کھڑا جاتی ہے، اس موقع پر وزرا بھی پیچھے نہ رہے، وہ لمبی لمبی پریس کانفرنسز کے دوران عجیب غریب اعدادوشمار پیش کرتے رہے۔
کبھی کہتے ہیں سخت لاک ڈاؤن کے باعث انڈیا میں اموات کی شرح کم رہی تو کبھی کہتے ہیں کہ حادثات میں زیادہ لوگ مر رہے ہیں، کورونا سے کم اموات ہوئیں۔
ملک کے ہسپتالوں پر نظر دوڑائیں تو صورتحال بالکل اچھی نہیں، مریض سہولیات سے محروم جبکہ ڈاکٹروں کو طبی سامان نہ ملنے کا شکوہ ہے۔ حکومت کے بروقت اقدامات نہ کرنے کی گونج اعلیٰ عدلیہ تک بھی جا پہنچی، اس پر سپریم کورٹ نے بھی کئی سوال اٹھا دیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے مناسب انتظامات نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
اب ملک میں کورونا سے ہونے والے اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ ملک میں 24 اپریل کو لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہی کورونا آؤٹ آف کنٹرول ہو گیا۔ صرف 14 دن میں 300 سے زائد اموات ہوئیں جبکہ 13ہزار کیسز سامنے آئے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے 1500 کے درمیان مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ملک میں ٹیسٹوں کی تعداد جوں جوں بڑھتی جا رہی ہے، مریض بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب روزانہ بارہ ہزار ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں کورونا سے اب تک 564 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔
کیا کوئی بتائے گا پچھلے دو ماہ میں بھوک سے کتنے لوگ مرے ہیں؟ اس عرصے میں کورونا سے لگ بھگ 24 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ کوئی بتائے گا کہ اس عرصے میں کتنے پاکستانی فاقے کا شکار ہوئے؟
مکمل ٹیسٹنگ اور مکمل لاک ڈاؤن میں ناکامی کے بعد حکومت نے اب سمارٹ ٹیسٹنگ اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی ہنڈیا چڑھائی ہے لیکن اگر فیصلہ سازی کی یہی حالت رہی تو یہ ہنڈیا بھی چوراہے میں پھوٹ جائے گی۔
حکمرانوں کا سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزرا عام آدمی کو سماجی دوری کے فوائد بتا رہے ہیں، مگر گورنر، سپیکر حتی کہ وزیرِاعظم ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں اور انتظامی معائنے بھی فرما رہے ہیں۔ اس موقع پر نہ ماسک لگایا جاتا ہے اور نہ ہی سماجی دوری کے فیصلے پر عمل کیا جاتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ دنیا نے کیا اقدامات کیے؟ کتنے واضح اور سخت فیصلے کیے؟ اور کتنے لوگ کورونا اور کتنے بھوک مرے؟ امریکا میں وبا سے اب تک 68 ہزار سے زائد، برطانیہ اور اٹلی میں 28 ہزار سے زائد، سپین میں 25 ہزار سے زائد اور فرانس میں 24 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتوں نے مرض کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے انتہائی سخت فیصلے کیے۔
دنیا بھر میں حکومتوں نے کورونا سے نمٹنے کے لئے کارپوریٹ سیکٹر کی مدد لی۔ انہوں نے سخت لاک ڈاؤن کیا اور لوگوں کی ضروریات بھی پوری کیں۔
جن ممالک میں بروقت اور بہتر فیصلے کئے گئے، وہاں واضح پالیسی ہونے کی وجہ سے عوام نے بھی حکومت کے فیصلوں پر عمل کیا۔ اسی وجہ سے متاثرین کے اعدادوشمار عروج پر پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ نیچے اتر رہے ہیں۔
اگر پاکستان میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے بروقت اقدامات کئے جاتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔ اب بھی وقت ہے، واضح پالیسی اپنا کر لوگوں کو اس مہلک وبا سے بچایا جا سکتا ہے۔