عمران خان کیلئے رکاوٹ کون؟

Last Updated On 20 April,2019 09:14 am

لاہور: ( امتیاز گل) اسد عمر کی وفاقی کابینہ سے افسوسناک علیحدگی سے ثابت ہوگیا کہ وہ طاقتیں جو 'سٹیٹس کو' کی حامی یعنی حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں، وہ اب وزیر اعظم عمران خان کو ناکام بنانے کیلئے متحرک ہوگئی ہیں، ان طاقتوں کی بنیاد مضبوط ہے اور ان کی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے، نئی حکومت کے قیام کو ابھی 8 ماہ ہی گزرے ہیں، لیکن اس دوران اہم امور پر اس کی اہلیت و کارکردگی اور حکومت کے مختلف اہم ستونوں میں ہم آہنگی کا فقدان نمایاں ہوچکا ہے۔

یہی نہیں بلکہ یہ بھی صاف نظر آنے لگا ہے کہ یہ حکومت بروقت درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، لیکن شاید اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب  سٹیٹس کو  کی یہ طاقتیں جو حکومت کے اندر ہی موجود ہیں عمران خان کے ایجنڈے اور تبدیلی کیلئے ان کی جانب سے اصلاحات کو ناکام بنانے کیلئے ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحت، پانی اور بجلی کے وزرا اور ان وزارتوں کے اعلیٰ افسران وزیر اعظم کے ساتھ غلط بیانی کر کے انہیں گمراہ کرتے رہے ہیں، یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا ہے کہ تمام صارفین بشمول بڑے صارفین بھی خود کو صدمے سے نہیں بچا سکے اور انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا، نرخوں میں اضافے کے ذمہ دار افراد موجودہ نظام کا حصہ ہیں اور انہوں نے محض حکومت کیلئے زیادہ آمدنی یقینی بنانے کیلئے بجلی اور گیس کے استعمال کے ایسے فارمولے وضع کیے جن سے صارفین بری طرح مالی دباؤ کا شکار ہوگئے۔

ان حلقوں کا قابل مذمت کردار یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان حلقوں نے بجلی اور گیس کی مہنگائی کا دفاع کرتے ہوئے عجیب و غریب ہی نہیں بلکہ انتہائی ناقابل فہم اور غیر عقلی دلائل بھی پیش کیے ، ان حکومتی لوگوں میں اسد عمر، عمر ایوب اور غلام سرور خان بھی شامل تھے، اسی طرح حال ہی میں جب ادویات کی قیمتوں میں تقریباً دگنا اضافہ کر دیا گیا تب بھی ایسے ہی بے سر و پا دلائل پیش کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگرصارفین کی بہت بڑی تعداد مختصر مدت کے دوران غیر متوقع طور پر ایک نہیں بلکہ تین مرتبہ شدید مالی جھٹکوں کا شکار ہوجائے تو حکومت کس طرح یہ ظاہر کرسکتی ہے کہ وہ بے خطا ہے ؟ جو کچھ بھی ہوا اس کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ یا تو وزیر اعظم ان تمام اقدامات سے آگاہ تھے یا پھر یہ سارا کیا دھرا ان وزرا کا ہے جنہوں نے محض حکومت کی آمدنی بڑھانے کیلئے عوام کو اس قدر مالی بوجھ کا شکار کر دیا، سوال یہ ہے کہ ان حکومتی کارروائیوں کو دن دیہاڑے ڈکیتی نہیں تو پھر کیا کہا جائے ؟۔

بالخصوص غلام سرور خان اور پانی و بجلی اور پٹرولیم میں موجود خوشامدی افسران نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافے کے ایسے جواز پیش کیے جن پر سوائے اظہار افسوس اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات پر غور ضروری ہے کہ جو کچھ بھی ہوا کیا اس کا مقصد محض بس یہی تھا کہ صحیح یا غلط کسی بھی طریقے سے حکومت کیلئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جائے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کارستانی  سٹیٹس کو  کی ان قوتوں کی رہی ہو جو عوام میں بے اطمینانی پیدا کر کے عمران خان کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کوشش کر رہی ہوں؟ اگر دوسری بات درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ سرکاری حکام نے ان وزیر صاحبان کو دلائل ‘‘فراہم’’ کر کے ان کی مدد کی ، اگر عوام پر مالی بوجھ لادنے کے بعد وزرا صاحبان اپنے افسران سے ’’فکری رہنمائی‘‘ حاصل کرنے لگیں تو ظاہر ہے کہ ان وزرا کو اس منصب کیلئے نااہل ہی سمجھا جائے گا اور اپنے مناصب پر ان کے برقرار رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا، کیونکہ ثابت ہوچکا ہے کہ’ سٹیٹس کو ‘کی طاقتوں نے ان وزرا کو مات دیدی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان وزرا نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا انہوں نے خود کو جان بوجھ کر طاقتور بیوروکریسی ( یا بابوکریسی) کے رحم و کرم پر چھوڑدیا یا پھر بیوروکریسی نے انتہائی چالاکی کے ساتھ انہیں اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑ لیا، دونوں میں سے جو بھی صورت رہی ہو، یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے عوام کا بہت بڑا حصہ متاثر ہوا یہاں تک کہ ان کیلئے اپنے گھریلو بجٹ کو سنبھالنا ناممکن ہوگیا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ فواد چودھری کو جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا ہے، یہ نشاندہی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ برسراقتدار آنے سے قبل عمران خان سابقہ حکومتوں کی اس روش پر بھی شدید نکتہ چینی کرتے تھے کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو بعض شعبوں میں اہم ذمے داریاں سونپی ہیں جنہیں ان شعبوں کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہیں، کیا فواد چودھری کو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کرنے کے بعد اب یہی اعتراض موجودہ حکومت پر نہیں کیا جاسکتا ؟ واضح بات ہے کہ فواد چودھری کے بارے میں وزیر اعظم کے اس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے عمران خان اپنے ہی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اب ’سٹیٹس کو‘ کی طاقتوں کی بات ماننے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

تیسری لیکن بہت اہم بات یہ ہے کہ اب عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی اکثریت کافی عرصے سے ان کی زبان سے ‘‘ شریفوں اور زرداریوں’’ کی بداعمالیوں کے قصے اور ان دونوں کی جانب سے کثیر قرضے لے کر ملک کو زیر بار کرنے کی کہانیاں سن رہے ہیں، لیکن اب عوام ان سب باتوں سے عاجز آچکے ہیں، عوام کا کہنا ہے کہ وہ عمران حکومت کی اہلیت کا فیصلہ سابق حکمرانوں کی بد اعمالیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمران خان اور ان کی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ’ سٹیٹس کو ‘کی طاقتیں پہلے حکمرانوں سے غلط فیصلے کرواتی ہیں، پھر انہی غلط فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان حکمرانوں کی مقبولیت کو بہت تیزی کے ساتھ ختم کرنے میں بہت مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ بعض وزرا ( ایک یا شاید دو ) کے بارے میں خبریں یہ ہیں کہ وزیر اعظم کے ساتھ ان کا طرز عمل ‘‘ بلیک میلنگ’’ سے مشابہ تھا، دوسری جانب’ سٹیٹس کو ‘کی نمائندگی کرنے والے کچھ لوگ وزیر اعظم کے اطراف بھی ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، اس کا مقصد حکومت پر اپنا شکنجہ مضبوط رکھنا اور اپنے مفادات کیلئے جب بھی ضروری ہو دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے فوری وفاداریاں تبدیل کرنا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ عمران خان کی ایک جانب تو سنگین اقتصادی مسائل ہیں تو دوسری جانب انہیں قومی اسمبلی میں بہت معمولی سی اکثریت حاصل ہے، حکومت کے بلوچ اتحادی وعدوں کی عدم تکمیل پر اپنی ناراضی کا کھلے عام اظہار کرچکے ہیں، ایم کیو ایم بھی حکومت کی اتحادی ہے لیکن اس کا ماضی بتاتا ہے کہ یہ مستقل مزاجی کے ساتھ اشتراک نہیں کرتی، اسی لیے اس کے اتحاد سے علیحدہ ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، ایک اور بات یہ ہے کہ حکومت کے اندر بلیک میلنگ کرنے والے عناصر بھی موجود ہیں، ان تمام عوامل کی وجہ سے عمران خان کے پاس اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے بہت کم متبادل راستے ( آپشنز ) باقی بچے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ان اصلاحات کا کیا بنے گا جن کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا اور جو پاکستان کی خودمختاری اور اس کی بقا کیلئے بہت ضروری ہیں ؟ یہاں یہ سوال بے محل نہ ہوگا کہ اگر عمران خان بھی ناکام ہوگئے تو پھر کیا ہوگا ؟ بے شک عمران خان’ سٹیٹس کو‘ کی بے قابو طاقتوں کی وجہ سے ایک دوراہے پر آچکے ہیں، اب استحکام کے راستے پر چلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ عمران خان پوری فہم و فراست کے ساتھ ملک کے عظیم تر مفاد میں ہوشمندی سے فیصلے کریں اور ثابت قدمی کے ساتھ ان پر قائم رہیں۔