لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) غیر سنجیدہ ماحول میں سنجیدہ ایشو پر قانون سازی کیلئے پیشرفت کا کوئی امکان نہیں، سیاسی ماحول بتا رہا ہے جنوبی پنجاب صوبہ کا معاملہ محاذ آرائی کی نذر ہو جائیگا۔ حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ پر کسی عملی پیش رفت کے بجائے اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے آئینی بل پیش کر کے حکومت کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کیا، اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے کسی عملی پیش رفت میں اس کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن کسی ٹھوس پیش رفت کا فی الحال امکان نظر نہیں آتا اور مسلم لیگ ن نے اس مرحلہ پر پہلے سے مشکلات کی شکار حکومت کو مذکورہ آئینی بل پیش کر کے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے ، غیر سنجیدہ ماحول میں سنجیدہ ایشو پر قانون سازی کیلئے دروازہ کھٹکھٹایا ہے جس پر بظاہر کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال میں اس طرح کے ایشو پر قرار داد جمع کروانا اور آئینی بل پیش کرنے کا مقصد صرف سیاست کرنا ہے چونکہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں تو نئے صوبوں کا قیام شامل ہے مگر یہ جماعتیں جب بر سر اقتدار آتی ہیں تو اپنا عہد اقتدار خاموشی سے گزارنے کی کوشش کرتی ہیں اور جونہی اپوزیشن میں آتی ہیں تو انہی مطالبات کو پھر سے قوم کا نمبر ون ایشو بنا کر سیاست شروع کر دیتی ہیں۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص نئے صوبوں کے قیام کا سنجیدہ کام سیاست کی نظر ہو جائے گا ؟۔ صوبوں کا قیام، مقصد قانون سازی یا سیاست بازی؟ بلا شبہ حکومت کا انتخابی مہم میں ایک بہت بڑا نعرہ سرائیکی خطے کے عوام کیلئے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے کا نعرہ تھا۔ مگر ہم تھوڑا ماضی کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی نے جو مناسب سمجھا وفاق اور صوبوں کے معاملات پر آئین سازی کرتی رہی۔ بنیادی طور پر یہی وہ جماعت ہے جو مضبوط صوبوں کی داعی ہے اور ایک نمائشی وفاق اس کی ترجیح ہے۔ مگر پنجاب کی تقسیم پر اس نے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ اسے خوف تھا کہ پنجاب کی طرف قدم بڑھایا تو پھر سندھ کے شہری علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
2013 سے 2018 تک نواز شریف کی جماعت حکمران رہی اور یہ عملاً مضبوط پنجاب کے حامی رہے اور اقتدار کے آخری دنوں میں پنجاب میں ایک نہیں دو صوبوں کی تحریک پارلیمنٹ میں لے آئے مگر موثر اور معنی خیز قانون سازی کبھی ان کی ترجیح نہیں رہی۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جو 18 ویں ترمیم کے معاملے پر ‘‘کچھ لو اور کچھ دو’’ سے کام لیکر نئے صوبے کیلئے نمبر گیم میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ جس کا امکان عمران خان کے لب و لہجہ کی سختی سے کم لگ رہا ہے۔ ن لیگ نے پہلے پارلیمانی سال میں یہ قرار داد لا کر ایک اچھی سیاسی شاٹ کھیلی ہے اور اس کی حکمت عملی محض جنوبی پنجاب نہیں بلکہ یہ چاہتی ہے کہ بہاولپور صوبہ بھی ہو تا کہ ملتان اور ڈی جی خان سے ختم ہونے والی عوامی حمایت بہاولپور ڈویژن میں بحال کی جائے۔ اس معاملے پر حقیقت یہی ہے کہ ایک کے بجائے دو صوبوں کے مطالبے کو پذیرائی مل گئی تو پھر پنجاب کی تقسیم مزید مشکل ہو جائیگی کیونکہ پھر بقیہ تین صوبوں کی مزید تقسیم کا تنازع بھی بڑھ جائیگا۔ اس لیے شاید صوبائی حکومت ملتان کو نئے صوبے کے دارالحکومت کے طور پر دیکھ رہی ہے اور صورتحال پر کنٹرول کیلئے ایک منی سیکرٹریٹ اور علیحدہ سروس کمیشن بنانا چاہ رہی ہے تا کہ صوبہ اگر نہ بھی بنا تو بھی سرائیکی خطے کی نارا ضی اور محرومی ختم ہو سکے ، واضح کرتا چلوں کہ نئے صوبے کا متبادل کبھی بھی ملتان کا منی سول سیکرٹریٹ نہیں بن سکے گا۔