لاہور (تجزیہ :سلمان غنی )ضمنی انتخابات کے حوالے سے ہمیشہ روایت رہی ہے کہ حکومت وقت باآسانی جیت جاتی ہے مگر اب کی بار نئے پاکستان کے نعروں میں عمران خان کی جماعت خود ان خان کی چھوڑی ہوئی دو نشستوں این اے 131 اور این اے 8 بنوں کے حلقوں سے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج میں ہار چکی ہے ۔ قومی اسمبلی کے 11 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے اب تک کے نتائج میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے 4 نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (نواز) نے بھی چار نشستوں پر قبضہ جما لیا جبکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں پر مسلم لیگ قائداعظم نے اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کر لی ہے۔
مگر اصل انتخابی معرکہ لاہور کا این اے 131 میں تھا جہاں وزیر اعظم عمران خان سے شکست کھانے والے خواجہ سعد رفیق کامیاب ہو گئے ۔ ان نتائج کے بعد کچھ سوالات اب بجا طور پر سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ذہنوں میں گونج رہے ہیں کہ ان نتائج کا حکومتی اختیار کردہ پالیسیوں سے کوئی تعلق تو نہیں؟ کیا ان نتائج نے 100 دن پورے ہونے سے پہلے حکومتی مقبولیت کو دھندلا دیا ہے ؟ کیا پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر اپنے امیدواروں کے چناؤ میں بے احتیاطی برتی؟ کیا یہ نتائج آزمائش سے دو چار ن لیگ کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے ؟
اب چونکہ ضمنی انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچ چکے تو آئندہ کے سیاسی منظر نامے پر یہ نتائج کتنے اثرات ڈالیں گے اور پارلیمنٹ کی ہنگامہ خیزی کا رنگ کیا ہوگا؟ یہ نتائج لازمی طور پر حکومت کی اختیارکردہ پالیسیوں سے اختلاف کااظہاربھی ہیں،حلف اٹھانے کے بعدحکومت نے جتنے یوٹرن لئے ہیں اور جوغیر مقبول معاشی فیصلے کئے ہیں ان سے عوام بری طرح سٹپٹا گئے ہیں ،موجودہ حکومت کی شروعات امیدوں اور تمناؤں کے ساتھ تھی مگر عوام پر مزید ٹیکس ، آئی ایم ایف کے پاس جانا اور اقتصادی راہداری پر گومگو کی کیفیت نے عوام کو ایک بار پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے مجبور کیا ہے ،معیشت ایک پر خطر ڈھلوان سے پھسل رہی ہے ایسی صورت میں آنے والے دنوں میں کئی ایسی سروے رپورٹس بھی آ سکتی ہیں جن میں حکومت اپنی مقبولیت مزید کھو بیٹھے گی۔
گو عمران خان کی کرشماتی شخصیت اپنے خلوص سے صورتحال کو ٹھیک کرنے میں مصروفِ عمل ہے مگر بحران اس وقت ٹیم ورک اور اجتماعی ذمہ داری کا تقاضا کر رہا ہے لیکن حکومتی صفیں اس سے خالی نظر آتی ہیں۔ ان انتخابات نے واضح کر دیا کہ تحریک انصاف ابھی تک ایک سیاسی ادارہ نہیں بن سکی اور ٹکٹوں کی تقسیم ابھی تک پارٹی میں سرگرم عمل مختلف گروپوں کے درمیان چپقلش کی وجہ بنی ہوئی ہے اور تاحال پی ٹی آئی قیادت سے غلط فیصلے کرا رہی ہے ۔ این اے 131 سے عمران خان نے قوم کو گواہ بنا کر کہا تھا کہ خانوادہ علامہ اقبال کے فرزند ولید اقبال ان کی جگہ الیکشن لڑیں گے مگر ہم نے دیکھا یہاں بھی روایتی طاقتور لوگ پالیسی پر غالب آئے اور ہمایوں اختر خان یہ ٹکٹ لے اڑے۔
اس سے نظریاتی لوگوں میں بد دلی پھیلی اور ایک بہترین حلقہ پی ٹی آئی امیدوار کو دل سے تسلیم نہ کر سکا۔ اس الیکشن میں عمران خان بطور وزیر اعظم شرکت نہیں کر سکے تو اس سے پارٹی میں ٹیم ورک بھی بے نقاب ہوا ہے اور صورتحال نے ایک بار یہ سبق دیا ہے کہ پارٹی میں عمران خان کی شخصیت کے سوا کوئی قد آور لیڈر شپ نہیں جو صورتحال پر قابو پائے ۔ اٹک میں بھی اسی صورتحال کا غلبہ رہا اور انتہائی مضبوط سیاسی گھرانے کو نظر انداز کرنے پر طاہر صادق کی چھوڑی ہوئی نشست سے ہاتھ دھونے پڑے اور ظاہر ہے میجر (ر) طاہر صادق کو نظر انداز کرنے پر اس ضلع سے تحریک انصاف آؤٹ ہو چکی ہے۔
راولپنڈی سے شیخ رشید کے بھتیجے راشد شفیق سخت مقابلے کے بعد چھد سو ووٹوں سے کامیاب ہوئے ۔ ڈیرہ غازی خان سے بھی ایک صوبائی سیٹ اویس خان لغاری ن لیگ کے حصے میں لے آئے ہیں، یہ پی ٹی آئی کے ممبر اسمبلی محمد خان لغاری نے چھوڑی تھی۔ البتہ مسلم لیگ(ق)نے اپنی دونوں نشستوں پر دوبارہ گرفت مضبوط کر لی ہے اور یہ چودھری برادران کے لیے اچھا شگون ہے ،ان کے سیاسی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ صورتحال آزمائش میں گھری جماعت نواز لیگ کے لیے عوامی ریلیف ثابت ہوگی۔
ضمنی الیکشن چونکہ زیادہ تر پنجاب کے حلقوں میں ہوئے تو پنجاب اب تک اس جماعت کا گڑھ ثابت ہو رہا ہے ۔ لازمی طور پر نواز شریف کے رہا ہونے سے صورتحال میں کافی فرق پڑا ہے ۔ بظاہر نواز شریف سیاست کے میدان میں اپنے جذباتی اور ذاتی دکھ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے مگر ووٹرز ٹرینڈ نے ان کی میدان میں موجودگی کی خبر دی ہے ۔ یہ ن لیگ کی ہمت اور حوصلہ میں مزید اضافہ کرینگے ۔ پارلیمنٹ کے فلور پر قانون سازی کے حوالے سے اس کے چند ووٹ مزید بڑھ جائینگے اور آئندہ کے منظرنامے پر اس کی موجودگی ہر حوالے سے حکومتِ وقت کو اپ سیٹ کرتی رہے گی۔ حکومت کے لیے یہ صورتحال مزید غور و فکر کا تقاضا کر رہی ہے کہ تمام احتسابی ہتھکنڈوں اور یکطرفہ احتسابی اقدامات کو عوام میں کوئی خاص پذیرائی نہیں مل رہی۔ لہٰذا صورتحال سے نکلنے کا بہترین نسخہ بلا امتیاز احتساب، معاشی ریلیف کی عوامی پالیسیاں اور سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر محاذ آرائی بڑھائے بغیر تبدیلی کا سفر شروع کرنا ہے ۔