500 آف شور کمپنیوں کا 30 ستمبر تک اندراج لازمی قرار دیدیا گیا

Published On 29 Jun 2017 07:50 PM 

پاناما لیکس کے انکشافات میں سامنے آنیوالی آف شور کمپنیوں کو 30 ستمبر تک گلوبل رجسٹر آف بینی فیشل آنرز میں درج نہ کروانے والے پاکستانی امراء کو ایک کروڑروپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) روزنامہ دنیا کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئے کمپنیز ایکٹ میں متعارف کروائی گئی گلوبل رجسٹر فار بینی فیشل آنر کی شق درحقیقت G-20 ممالک تنظیم کی جانب سے دنیا میں منی لانڈرنگ اور ٹیررازم فنانسنگ کے خاتمے کیلئے کی جا رہی کوششوں کی ایک کڑی ہے تا کہ پتہ چلایا جا سکے کہ دنیا میں قائم بڑے بڑے کاروبار سے فوائد حاصل کرنیوالے اصل لوگ کون ہیں؟ اور کیا ان میں کوئی ٹیررازم فنانسنگ کرنیوالے عالمی گروہ یا منی لانڈرنگ کر کے اپنی قوم کو اس کی دولت اور ٹیکس سے محروم کرنیوالے با اثر افراد تو شامل نہیں ہیں؟ اگر اصل رجسٹرڈ فرد کے بجائے کوئی پس پردہ بیٹھ کر ان کاروباروں سے آمدن حاصل کر رہا ہے اور اسے ناجائز کاموں میں صرف کر رہا ہے تو اس کا کھوج لگایا جا سکے۔

جی 20 ممالک کی عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں دنیا میں منی لانڈرنگ اور ٹیررازم فنانسنگ کی روک تھام اور مانیٹرنگ کیلئے قائم کی گئی عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے اشتراک سے اس گلوبل رجسٹر فار بینی فیشل آنرشپ کا روڈ میپ تیار کیا ہے تا کہ دنیا میں کسی بھی بڑے کاروبار سے حاصل ہونیوالی آمدن، دہشتگردی اور دیگر غیر قانونی کاموں میں استعمال نہ ہو سکے۔

پاکستان میں گلوبل رجسٹر فار بینی فیشل آنرز اب پارلیمنٹ کی منظوری سے کمپنیز ایکٹ 2017ء کا حصہ بن چکا ہے اور اب پاکستان اس عالمی ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کیلئے ملک کے اندر کاروبار کرنیوالی کارپوریٹ سیکٹر کی کمپنیوں کے حقیقی مالکان کا ڈیٹا بینک بنائے گا اور ان پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں میں اگر سرمایہ کاری اس آف شور کمپنی کی مجموعی سرمایہ کاری کے 10 فیصد تک ہے تو ان کو پاکستان میں اپنی کمپنیوں کے گوشواروں میں ظاہر کرنے کا پابند بنایا دیا گیا ہے تا کہ پاکستان کے اندر یا پاکستان سے کسی بھی عالمی تحقیقات کے وقت اگر کسی کمپنی کے بارے میں معلومات درکار ہوں تو کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت پاکستان میں قائم کردہ گلوبل رجسٹر فار بینی فیشل آنرز سے انہیں یہ معلومات فوری طور پر فراہم کی جا سکیں۔

بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں30 ستمبر تک کمپنیوں کی جانب سے ایس ای سی پی کو جمع کرائے جانے والے گوشواروں میں پاکستانی کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے بیرون ملک چلائی جا رہی آف شور کمپنیوں یا ان میں کم از کم 10 فیصد تک کی سرمایہ کاری کو ظاہر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مقررہ تاریخ تک معلومات فراہم نہ کرنے پر 15 دن کا پہلا نوٹس اور 15 دن کا دوسرا شو کاز نوٹس جاری کر کے پاکستانی کارپوریٹ کو شنوائی کا ایک موقع دیا جائے گا اور کوتاہی کی صورت میں ایس ای سی پی 4 سو متمول پاکستانیوں کی 500 آف شور کمپنیوں کو 30 ستمبر تک گلوبل رجسٹر آف بینی فیشل آنرز میں درج نہ کروانے والے پاکستانی امرا کو پاکستان کے اندر کمپنیز آرڈیننس کے تحت 10 ملین روپے تک جرمانہ تجویز کر سکتا ہے اور ان کے کیس کمپنیز کورٹ کو بھجوا سکتا ہے۔