ووٹرز نے جیپ کے پرخچے اڑا دیئے

Last Updated On 31 July,2018 07:34 pm

لاہور: (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشانات الاٹ کئے گئے تو چند امیدواروں کے حصے میں جیپ کا انتخابی نشان آ گیا، جس کے بعد جیپ کا نشان میڈیا پر موضوع بحث بن گیا۔

پاکستان میں ہونے والے انتخابات 2018ء میں آزاد امیدواروں کو ملنے والے انتخابی نشانات میں جیپ کے انتخابی نشان کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ جیپ کے نشان پر کئی اہم امیدوار الیکشن میں بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ ان میں وہ امیدوار بھی شامل تھے جو اپنی پارٹیوں سے اختلافات کے بعد آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشانات الاٹ کئے گئے تو ماضی میں پارٹیوں سے وابستگی رکھنے والے امیدواروں میں سے چند کے حصے میں جیپ کا انتخابی نشان آ گیا جس کے بعد جیپ کا نشان میڈیا پر موضوع بحث بن گیا۔ جیپ کے انتخابی نشان توجہ کا مرکز بنا تو مختلف پیش گوئیاں اور افواہیں اس حوالے سے گردش کرنے لگیں۔

جیپ ایک ایسا نشان بن چکا تھا جس کو ایک پارٹی کے طور پر سمجھا جانے لگا اور اس تاثر کی بنیاد مختلف وجوہات کی بنا پر تھی۔ جیپ کے نشان پر ملک بھر سے امیدوار موجود تھے۔ جیپ کے نشان کو پذیرائی تب ملی جب سابق وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کر کے اس نشان سے عام انتخابات میں لینے کا اعلان کیا اور ان کے اعلان کے بعد جیپ اتنی اہمیت حاصل کر گئی کہ ہر حلقہ میں اس کو انتخابی نشان کے طور پر حاصل کرنے کیلئے درخواستیں دی جانے لگیں۔

جیپ کا نشان اتنا اہم تھا کہ الیکشن کمیشن بھی مجبور ہو گیا کہ انتخابی نشان کیلئے بنائی گئی سکیم پہلے آﺅ پہلے پاؤ کوختم کر کے ٹاس سسٹم متعارف کروایا تا کہ اس نشان کیلئے جتنے بھی امیدوار ہوں، ان کے نام کی پرچیاں ڈالی جائیں یا پھر ٹاس کرایا جائے۔

جیپ کو جیت کا نشان تک بھی کہا جانے لگا اور جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے امید کی جا رہی تھی کہ یہ حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

الیکشن سے پہلے جیپ کے نشان کو اتنی اہمیت دی گئی کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات میں بلکہ روزمرہ زندگی کی گفتگو میں شامل کیا جانے لگا جبکہ اخبارات میں پورے پورے صفحات صرف جیپ پر لکھے گئے۔

جیپ کے نشان پر تبصرہ مزید اس وقت زیادہ ہوا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کچھ امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کر کے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور پارٹی رہنماﺅں کی طرف سے یہاں تک بھی کہا گیا کہ جیپ کے نشان پر جو بھی مہر لگائے گا، وہ دراصل تیسری قوت کو ووٹ دے رہا ہو گا۔

جیپ اور تیسری قوت کو ایک ہی خاندان کا ممبر بنایا جانے لگا تھا۔ جیپ کے نشان پر کچھ تو اہم سیاسی رہنما تھے لیکن باقی سب ایسے امیدوار تھے جو پہلے شاید ہی کوئی الیکشن جیتے ہوں۔

ان اہم سیاسی رہنماﺅں میں سابق وزیرِ داخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان، سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی، ان کے والد پرویز گورچانی، حفیظ الرحمان دریشک، سردار محمد یوسف دریشک، سردار دوست محمد کھوسہ اور ملک سلطان محمود ہنجرا سرفرست تھے۔

اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو جیپ کے نشان پر پورے پاکستان سے کل 461 حلقوں میں امیدواروں نے الیکشن میں قسمت آزمائی کی۔ قومی اسمبلی کی 136، پنجاب اسمبلی کی 192، سندھ اسمبلی کی 55، بلوچستان اسمبلی کی 29 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی 49 نشستوں پر جیپ کے نشان پر امیدواروں نے 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔

پنجاب سے چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 59 اور 63 جبکہ صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 10 اور پی پی 12 سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے۔

ان چار حلقوں میں سے چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں اور پی پی 12 سے الیکشن ہار گئے جبکہ صرف ایک نشست پی پی 10 راولپنڈی سے الیکشن جیت سکے۔

سابق ترجمان پنجاب حکومت سید زعیم حسین قادری نے لاہور سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 125 اور این اے 133 سے آزاد حیثیت سے اپنی ہی سابقہ پارٹی کے خلاف انتخابی میدان میں اترے جس میں ایک حلقہ این اے 125 میں ان کا انتخابی نشان جیپ تھا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور یہ دونوں حلقوں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے ہار بیٹھے۔

حلقہ 125 سے زعیم قادری کو صرف 128 ووٹ ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وحید عالم خان کو 122327 ووٹ ملے۔ جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ کے چند اہم امیدواروں نے ٹکٹ جمع کروانے کے آخری روز ٹکٹ واپس کر کے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جن میں این اے 193 اور پی پی 293 راجن پور سے سردار شیر علی گورچانی، این اے 194 راجن پور سے حفیظ الرحمان دریشک اور پی پی 296 راجن پور سے سردار محمد یوسف دریشک شامل ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی امیدوار قومی اور صوبائی نشست پر کامیاب نہیں ہو سکا۔

این اے 181 مظفرگڑھ سے ملک سلطان محمود ہنجرا اور این اے 191 اور پی پی 289 ڈیرہ غازی خان سے سردار دوست محمد خان کھوسہ نے بھی جیپ کے نشان پر انتخابی دوڑ میں حصہ لیا لیکن ان کی کوشش بھی رائیگاں گئی۔

اسی طرح پنجاب کے دیگر حلقوں سے اہم امیدواروں کی بات کی جائے تو این اے 72 سیالکوٹ سے میاں عابد جاوید 376 ووٹ لے کر حلقے میں سب سے کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار قرار پائے۔ این اے 74 سیالکوٹ سے منصور سرور خان نے 358 ووٹ لئے، این اے 121 شیخوپورہ سے خرم منور منج، این اے 143 اوکاڑہ سے سید علی عباس گیلانی، این اے 147 ساہیوال سے ہارون زمان کھگہ، این اے 171 بہاولپور سے چودھری طارق بشیر چیمہ اور این اے 183 مظفرگڑھ سے طارق احمد گورمانی عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔

پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جیپ کے انتخابی نشان پر قسمت آزمانے والے دیگر اہم امیدواران میں پی پی 34 گجرات سے آصف رضا صرف 300 ووٹ لے سکے، سیالکوٹ پی پی 35 سے میاں عابد جاوید اپنا قومی حلقے کا ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے صوبائی حلقہ میں بھی 96 ووٹ کے ساتھ آخری نمبر پر رہے، پی پی 67 منڈی بہاء الدین سے لیاقت علی رانجھا، پی پی 149 لاہور سے محمد آجاسم شریف، پی پی 154 لاہور سے محمد وحید گل، پی پی 179 قصور سے رانا ممتاز علی خان اور پی پی 275 مظفر گڑھ سے عبدالقیوم جتوئی بھی قابل ستائش کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

انتخابات 2018ء کے حتمی نتائج کے مطابق جیپ کے نشان پر قومی اسمبلی کے 136 حلقوں سے الیکشن لڑنے والے امیدوار کسی بھی نشست پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ پنجاب اسمبلی کے 192 حلقوں پر آزاد امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ ہوا جن میں سے صرف ایک حلقہ پی پی 10 راولپنڈی سے چودھری نثار علی خان کو کامیابی ملی جبکہ دیگر تمام حلقوں سے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سندھ اسمبلی کے بھی 55 حلقوں سے آزاد امیدوار جیپ کے نشان پر میدان میں اترے مگر بری طرح ناکام ہوئے، کسی بھی امیدوار کو جیت کی خوشخبری نہیں مل پائی۔ بلوچستان اسمبلی کے 29 حلقوں میں امیدواروں کو جیب کا نشان الاٹ ہوا جن میں سے صرف 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔

پی بی 5 دکی سے مسعود علی خان اور پی بی 34 چاغی سے محمد عارف کامیاب قرار پائے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی کے 49 حلقوں پر قسمت آزمانے والوں میں سے صرف ایک نشست پر جیپ کو کامیابی ملی جو کہ کوہستان کے حلقہ پی کے 25 سے محمد دیدار کو نصیب ہوئی۔

انتخابات میں جیپ کے نشان کو جو ایک مضبوط پارٹی کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، اس تاثر کا خاتمہ انتخابی نتائج میں ووٹرز کی رائے کے ذریعے ہو گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ووٹرز نے اپنے ووٹ کی طاقت سے جیپ کے پرخچے اڑا دیئے تو یہ کسی صورت غلط نہیں ہو گا۔