پاکستانی سیاست میں پارٹی ترانوں کی انٹری اور عوامی مقبولیت

Last Updated On 24 July,2018 07:22 pm

لاہور: (دنیا نیوز) انتخابی جلسوں میں پارٹی ترانوں کا سلسلہ عمران خان نے شروع کیا، شروع میں اس رحجان پر پی ٹی آئی کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر سیاسی جماعت نئے نئے ترانوں کے ساتھ جلسوں میں رنگ جماتی نظر آئی۔

پاکستانی سیاست میں انٹرٹینمنٹ کی انٹری، گیت اور ترانے نہ ہوں تو سیاسی جلسوں کے رنگ پھیکے لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی ریلیوں اور جلسوں میں پارٹی رنگوں کی مناسبت سے لباس، ٹوپیاں اور گلے میں پٹکے ڈالنے کا رواج بھی عام ہے۔ پارٹی پرچم کے رنگ میں رنگ کر کارکنان مختلف دھنوں پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔

جلسوں میں گیتوں کا سلسلہ چلا تو ڈی جے بھی معتبر ہوئے، پی ٹی آئی نے اپنے ہر جلسے میں ایک نیا پارٹی گیت متعارف کروا کر کارکنوں کے لہو کو گرمایا۔ پاکستان تحریک انصاف کا گیت "اب آئے گا عمران" خوب مقبول ہوا۔

یہ گیت سدا بہار مقبولیت رکھنے والے گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے گایا۔ اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں میں گائے گیتوں نے کارکنوں میں خوب پذیرائی حاصل کی۔

 ابرارالحق نے بھی مخصوص شاعری کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا۔

 مسلم لیگ نواز بھی اس معرکے میں پیچھے نہ رہی اور خوب مہریں لگاتی نظر آئی۔ 

 دیکھا دیکھی اس مقابلے میں کچھ جانے پہچانے اور کچھ انجانے شاعروں کا کلام بھی زبان زد عام ہوا۔

پیپلز پارٹی کا انتخابی گیت بھی ہر جیالے کی زبان پر ملتا ہے۔ بی بی شہید سے لے کر بلاؤل بھٹو پر بننے والے گیتوں نے بھی کارکنوں کو خوب متاثر کیا۔

مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ترنم کے ساتھ میدان میں باہر نکلیں اور جلسوں میں پارٹی ترانوں سے رنگ جمایا۔