لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان میں نگران وزرائے اعظم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں، 1970ء کے بعد سے عام انتخابات کے انعقاد کا فریضہ برسرِ اقتدار حکمران جماعت ہی سرانجام دیتی رہی ہے مگر ”جھرلو پھیرنے“ کے الزامات کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے بعد نگران حکومت بنانے کے تصور کو فروغ ملا۔
پہلے نگران وزیرِاعظم نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مصطفی جتوئی تھے۔ سابق صدر غلام اسحق خان نے 1990ء انہیں 3 ماہ کے لیے وزیرِاعظم بنایا، وہ عام انتخابات کرانے کے بعد اپنے عہدے سے الگ ہو گئے۔
دوسرے نگران وزیرِاعظم میر بلخ شیر مزاری پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما تھے، وہ 18 اپریل 1993ء سے 26 مئی 1993ء تک محض 1 ماہ 26 دن برسرِ اقتدار رہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف حکومت کی بحالی کے بعد نگرانِ وزیرِاعظم کی ضرورت اور جواز ختم ہو گیا تھا۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے حکم ملنے کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا، وہ اپنی حکومت کو سیاسی رسہ کشی سے بچانے میں ناکام رہے۔ ایک ماہ کی قلیل مدت میں انہوں نے خود ہی استعفیٰ دے دیا۔
بعد ازاں معین الدین قریشی 18 جولائی 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک 3 ماہ اور ایک دن نگرانِ وزیراعظم کے فرائض ادا کرتے رہے، وہ ملک کے چوتھے نگران وزیرِاعظم تھے۔
بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد وہ 5 نومبر 1996ء کو حکومت میں آئے اور 17 فروری 1997ء تک 3 ماہ 12 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے انتخابات پر انگلیاں اٹھیں۔
پانچویں نگران وزیرِاعظم میاں محمد سومرو 16 نومبر 2007ء کو وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 4 ماہ 8 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 24 مارچ 2008ء کو حکومت چھوڑی۔ نگران وزرائے اعظم میں ان کا عہد سب سے طویل تھا۔
2013ء میں میر ہزار خان کھوسو چھٹے نگران وزیرِاعظم بنے۔ وہ واحد نگران وزیر اعظم تھے جن کی نامزدگی الیکشن کمیشن نے 24 مارچ 2013ء کو کی تھی۔ 25 مارچ کو انہوں نے اپنا منصب سنبھالا۔ ان کے دور میں 35 پنکچر کی اصطلاح عام ہوئی۔
ان کے علاوہ کوئی ایک نگران بھی آرام سے نہ جا سکا، سب پر ہی دھاندلی کے الزامات لگے۔ اس وقت نگران وزیرِاعظم جسٹس (ر) ناصرالملک کی نگرانی عام انتخابات کا مرحلہ بہت قریب آ چکا ہے، خدا کرے بخیر وعافیت یہ مرحلہ بھی انجام کو پہنچ جائے۔