بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین کی سب سے بڑی جامعات میں شامل ایک یونیورسٹی کے محققین نے ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو کرونا وائرس سے لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ مشین ایک روبوٹک آرم یا بازو پر مشتمل ہے جس میں ایک پہیہ بھی نصب ہے جو متاثرہ شخص یا مریض کا الٹراساؤنڈ کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کے اعضا سے نکلنے والی آوازوں کو بھی سن سکتی ہے۔ عموماً ڈاکٹرز یہی کام اسٹتھو سکوپ سے لیتے ہیں۔
روبوٹ جدید ترین کیمروں سے لیس ہے جس کی مدد سے طبی عملہ وہ سارے کام انجام دے سکتا ہے جو ایک ڈاکٹر کرتا ہے۔ طبی عملے کو مریض کی دیکھ بھال کرنے کے لیے قریب رہنا بھی ضروری نہیں ہے۔ بیشک وہ کسی دوسرے شہر میں ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ روبوٹ انہیں ہر جگہ مریض کی کیفیت سے مطلع کر سکتا ہے۔
اس طرح کے کام عام طور پر ڈاکٹر ذاتی طور پر انجام دیتے ہیں لیکن روبوٹ کے ساتھ، جو کیمروں سے لیس ہے، طبی عملے کو مریض کی طرح ایک ہی کمرے میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روبوٹ کے چیف ڈیزائنر چینہوا یونیورسٹی کے پروفیسر ژینگ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز بلاشبہ بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن کرونا وائرس متعدی ہے اس لیے ہم انتہائی خطرناک کاموں کو انجام دینے کے لیے روبوٹ استعمال کر سکتے ہیں۔
پروفیسر ژینگ کو اس قسم کا روبوٹ ڈیرائن کرنے کا خیال پہلی مرتبہ ووہان میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران آیا جہاں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔
ایک انجینئر کی حیثیت سے ژینگ امدادی کاموں میں حصہ ڈالنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ نئے قمری سال کے پہلے دن انہوں نے اپنے دوست ڈونگ، جو بیجنگ کے چینہوا چانگ گنگ ہسپتال میں ایگزیکٹو صدر ہیں، کی زبانی سنا کہ سب سے بڑا مسئلہ فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو انفیکشن سے محفوظ بنانا تھا۔
ایک ٹیم کو یکجا کرتے ہوئے ژینگ نے خلائی سٹیشن میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے دو میکانائزڈ روبوٹک ہتھیاروں کو تبدیل کیا جو مکمل طور پر خود کار تھے اور ایک نیا روبوٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ روبوٹ فرنٹ لائن پر کام کرنے والے طبی عملے کو جراثیم سے دور رکھتا ہے۔
اس ٹیم کے پاس اب دو روبوٹ ہیں۔ جنہیں بیجنگ کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے بخوبی آزمایا ہے۔ ایک یونیورسٹی لیب میں ڈیوٹی انجام دے رہا ہے جبکہ دوسرا روبوٹ ووہان کے یونین ہسپتال میں موجود ہے۔
ژینگ کا کہنا ہے روبوٹ ووہان میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے وارڈ راؤنڈ کے وقت نرس یا عملہ کے کسی دوسرے ممبر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
ژینگ اس طرح کے مزید روبوٹ بنانا چاہتے ہیں لیکن یونیورسٹی فنڈنگ ختم ہوگئی ہیں۔ ایک روبوٹ بنانے پر 72 ہزار امریکی ڈالر (تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ روپے) لاگت آتی ہے جو معمولی رقم نہیں ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ کوئی نہ کوئی کمپنی اس کام کے لیے ان سے رابطہ ضرور کرے گی۔
چینی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے ہزاروں طبی کارکنوں کو کرونا وائرس کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے ہوبی میں تعینات کیا تھا۔
گزشتہ ماہ کے آخر تک تین ہزار سے زائد طبی کارکن کرونا سے متاثر ہو چکے تھے۔ کارکنوں کی جگہ اگر بڑے پیمانے پر یہ روبوٹ استعمال کیے گئے تو قیمتی انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جاسکے گا۔