اسلام آباد: (دنیا نیوز) نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کا حکم نامہ، جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دیا گیا، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیر التوا ہے اس کیس کی سماعت روک دی جائے، دوسری صورت میں کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے، ملٹری کورٹس کیس میں بھی میرا موقف یہی تھا کہ فل کورٹ کیس سنے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آٹھ رکنی لارجر بینچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دیا، 4 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس مقرر نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فوری فیصلہ دیا جائے تاکہ عدالت قانون کے تحت کام کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: کاروباری شخصیات کیخلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا: چیف جسٹس
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت حکم امتناع کی غیر یقینی صورتحال میں کام کر رہی ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہایت اہم ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حق میں فیصلہ آیا تو نیب ترامیم کیس قانون کی نظر میں غیر موثر ہوجائے گا، ایکٹ پر فیصلہ نہ ہونے تک خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ رولز تبدیل ہو چکے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو قانونی طریقے سے چلانے کیلئے ناگزیر ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں اپنی رائے کو پھر دوہراتا ہوں کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ کیا جائے یا فل کورٹ تشکیل دی جائے۔