اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپیل کا دائرہ بڑھا کر عدلیہ میں مداخلت کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی جس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں خامیاں ہیں۔
اس دوران چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق پچھلے عدالتی حکم نامے بھی پڑھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کومطلع کیا، اٹارنی جنرل نے جون میں کہا تھا اس ایکٹ کو اسمبلی دیکھے گی لیکن اس اسمبلی نے ایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا، نہیں معلوم موجودہ حکومت کا اس قانون سے متعلق مؤقف کیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا معطل شدہ قانون کو اتنی اہمیت دی جائےکہ اس کی وجہ سے تمام کیس التواء کا شکار ہوں؟ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ پر دوبارہ جائزے کے لیے دوبار وقت کیوں مانگا؟ کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کردے؟
جسٹس اعجاز نے کہا کہ یکم اور 8 جون کا فیصلہ اس لیے سنایا کہ حکومت نے خود تسلیم کیا ناقص قانون سازی کی گئی، عدالتی حکم سے معطل شدہ قانون سازی کے تحت کارروائی متاثرتو نہیں کی جا سکتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ گڈ ٹو سی یو اور ساتھ ہی کہا کہ امید ہے ایسا کہنے پر مجھے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پروسیجر بل میں حکومت نے اپیل کا دائرہ کاربڑھایا تھا، حکومت سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کیسےکرسکتی ہے؟ اگر حکومت سمجھتی ہے قانون کو بہتر یا دوبارہ دیکھا جائے تو عدالت مداخلت نہیں کرے گی، سپریم کورٹ پارلیمنٹ پر غالب آنا نہیں چاہتی لیکن سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کے خلاف ہے، اس ایکٹ سے عدلیہ میں مداخلت کی کوشش کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس سپریم کورٹ کا یہی 3 رکنی بنچ ہی سنے گا، بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔