اورنج ٹرین میں تاخیر کیوں، کب چلے گی؟

Last Updated On 25 August,2018 10:44 am

لاہور: ( شیخ زین العابدین) شہباز شریف کے دور حکومت میں شروع ہونیوالے مہنگے ترین ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ ’میٹرو اورنج ٹرین ‘ کو حکومتی اداروں نے بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ تعمیراتی کام بروقت نہ ہونے کے باعث جہاں یہ شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن چکا ہے وہیں اس کی تعمیراتی لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اعدادوشمار کے مطابق میٹرو اورنج ٹرین کے چار پیکیجز کا سول ورک اوسطاً 91 فیصد مکمل ہو چکا ہے جبکہ الیکٹریکل اور مکینیکل ورک کا کام ابھی تک صرف ستر فیصد مکمل ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعدادوشمارسے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر ایل ڈی اے، ماس ٹرانزٹ اتھارٹی ، ٹیپا اور چائنیز کنٹریکٹر بروقت اور رفتار سے کام کریں تو اورنج ٹرین کو مکمل طور پر فعال کرنے کے لیے مارچ 2019 تک کا وقت درکار ہوگا۔

پیکیج ون ڈیرہ گجراں سے چوبرجی ، پیکیج ٹو چوبرجی سے علی ٹائون ، پیکیج تھری ڈیرہ گجراں ڈپو اور پیکیج فو ر علی ٹائون سٹیبلینگ یارڈ ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں میٹرو اورنج ٹرین کے دو پیکیجز پر تعمیراتی کام مکمل طور پر بند کر دیا گیا ۔ پیکیج تھری ڈیرہ گجراں ڈپو اور پیکیج فور سٹیبلنگ یارڈ پر تعمیراتی کام ٹھپ ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹر کمپنیوں کو پیسوں کی عدم ادائیگیوں کے باعث کام کو روکا گیا ہے ۔ دونوں مذکورہ پیکیجز کا کام نوے فیصد سے زائد مکمل کر لیا گیا تھا تاہم اب آخری مرحلے میں یہ کام بند کر دیا گیا ہے جس کے باعث یہ دونوں پیکیجز بھی ابھی تک ادھورے ہیں ۔ اورنج ٹرین کو مکمل کرنے کے لئے انتظامیہ کو پیکیج ٹو میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔ اورنج ٹرین پیکیج ٹو چوبرجی سے علی ٹائون تک کام تعطل کا شکار رہا اور پیکیج کی سابق کنٹریکٹر کمپنی مقبول کالسنز کوبلیک لسٹ بھی کیا گیا اور نئی کمپنی زیڈ کے بی کو ٹھیکہ دیا گیا مگر زیڈکے بی کی جانب سے کام انتہائی سست روی سے جاری ہے اور نجی کنٹریکٹر کمپنی کی جانب سے اپنے انجینئرز اور ملازمین کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بیشتر ورک فورس نے کام چھوڑ دیا ہے جس کے باعث منصوبے کو مکمل کرنے میں مسلسل تاخیر ہوتی جارہی ہے۔

پیکیج ٹو کا تعمیراتی کام ابھی صرف 78 فیصد مکمل ہوسکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تینوں مذکورہ پیکیجز کو مکمل کرنے کے لیے نجی کنٹریکٹرز نے ایل ڈی اے اور ماس ٹرانزٹ اتھارٹی سے چار ماہ کا وقت مانگ لیا ہے اور اگر برق رفتاری سے کام کیا جائے تو اورنج ٹرین کا سول ورک دسمبر 2018 میں مکمل ہوگا۔ اورنج ٹرین کو چلانا بھی موجودہ صورتحال میں حکومتی اداروں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اورنج ٹرین کی کنٹریکٹر چائنیز کمپنی سی آر نورنکو کو منصوبے کے لیے مکینیکل اور الیکٹریکل ورک کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر تاحال ٹرین کو چلانے کے لیے الیکٹریکل کام مکمل نہیں ہوسکا۔ وائرنگ کا عمل کر دیا گیا ہے مگر تاحال اس الیکٹریکل ورک کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا اور اس ٹیسٹ کے لیے بھی سی آر نورنکو کمپنی کو کم از کم دو ماہ کا وقت درکار ہے جبکہ دوسری جانب تمام سول، مکینیکل اور الیکٹریکل کام کے بعد اورنج ٹرین کو کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے لیے ٹریک پر بطور آزمائشی سروس چلانا ضروری ہے اور اس ضمن میں چائنیز کمپنی سی آر نورنکو نے آزمائشی سروس تین ماہ تک چلانے کے لیے ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کو بھی آگاہ کر دیا ہے اور اگر سول ورک دسمبر 2018 میں مکمل ہوتا ہے تو مارچ 2019 تک آزمائشی سروس چلائی جائے گی۔

ان تمام اعدادوشمار کے مطابق اگر تمام تر حکومتی وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو میٹرو اورنج عوام کے لیے باقاعدہ طور پر اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں چلائی جائے گی۔ اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر اورنج ٹرین حماد الحسن کا کہنا تھا کہ ایل ڈی اے اور دیگر تعمیراتی اداروں نے سول ورک کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے اوردو سے تین ماہ میں باقی ماندہ کام بھی کر لیا جائے گا تاہم اب چائنیز کمپنی کی ذمہ داری ہے وہ اس منصوبے کو جلد مکمل کرے ۔