عالمی بینک سے 500ملین ڈالر قرض منسوخی کی خبر بے بنیاد قرار

Published On 14 December,2024 04:52 pm

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والا 500 ملین ڈالر کا قرض منسوخ کرنے کے متعلق خبر پر وزارت اقتصادی امور نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس کی تردید کردی ۔

گزشتہ روز مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ورلڈ بینک نے 500 ملین ڈالر سے زائد کا بجٹ سپورٹ قرض اس بنا پر منسوخ کیا کہ اسلام آباد کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر نظر ثانی سمیت کچھ اہم شرائط پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

رپورٹ کے مطابق بجٹ سپورٹ لون نہ دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان نے اپنا کوٹہ بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔

حکومتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی بینک نے 500 سے 600 ملین ڈالر کا قرضہ منسوخ کر دیا جس کا مقصد پاکستان کو سستی اور صاف توانائی فراہم کرنا تھا، ابتدائی طور پر یہ قرضہ 500 ملین ڈالر تھا لیکن عالمی بینک نے اسے بڑھا کر 600 ملین ڈالر کرنے پر غور کیا تھا، اسے PACE-II بھی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح جون 2021 میں ورلڈ بینک نے پاکستان کو توانائی کے حوالے سے مدد کرنے کے پروگرام کی منظوری دی اور ملک کو 400 ملین ڈالر کی پہلی قسط فراہم کی تھی، تاہم بینک کے پاس مزید رقم دینے کی شرائط تھیں، ان شرائط میں سی پیک کے تحت چینی پاور پلانٹس کے سیٹ اپ سمیت تمام آزاد پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی شامل تھا، پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک پاور پلانٹس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بنائے گئے چینی پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے، چین نے ان معاہدوں پر نظرثانی کرنے سے انکار کر دیا، جس میں تقریباً 16 بلین ڈالر کے توانائی کے قرض کی تنظیم نو کرنا بھی شامل ہے۔

وفاقی حکومت پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرکے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس میں سن 1994، 2002 اور 2015 میں لگائے گئے پلانٹس شامل ہیں، جن میں کچھ حکومت کی ملکیت ہیں اور کچھ چینی پاور پلانٹس بھی شامل ہیں۔

حکومت نے اب تک توانائی کے 22 معاہدوں پر بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا لیکن بجلی کی قیمت میں فی یونٹ کمی کے لحاظ سے کوئی بڑی بچت نہ ہوئی، بجلی کی قیمت ٹیکسوں اور سرچارجز کو شامل کرکے اب بھی 65 سے 70 روپے کے درمیان ہے۔

دوسری جانب حکومت بھاری بجلی استعمال کرنے والوں سے 16 روپے فی یونٹ تک کی اضافی فیس کو ختم کرنے میں تذبذب کا شکار ہے، یہ فیس ان لوگوں کے لیے بجلی کی قیمت کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے جو ماہانہ 200 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔

خیال رہے اگر حکومت اس اضافی فیس سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے، تو یہ کمرشل بجلی صارفین اور کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتی ہے۔