لاہور: (ویب ڈیسک) ایک امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران دنیا بھر میں جعلی خبریں بزرگ افراد زیادہ تر شیئر کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے نئے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کووڈ انیس کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران دنیا بھر میں جعلی خبروں کی وباء عفریت بن کر سامنے آئی ہے، تاہم اس دوران ہمیں پتہ چلا کہ بزرگ افراد کی بڑی تعداد جعلی خبریں پھیلانے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔
لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق 70 فیصد جعلی خبروں کو ٹویٹر پر ری ٹویٹ کیا جاتا ہے، 2016ء سے لیکر اب تک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بزرگ افراد اسے زیادہ پھیلاتے ہیں۔
ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیکنالوجی سے ناواقفیت بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے نوجوان کی بنسبت بزرگ تیزی سے جعلی خبروں کو شیئر کرتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کسی بھی خبر پر کمنٹ ضرور کرتی ہے تاہم بزرگ افراد کمنٹ کرنے کی بجائے اسے شیئر کرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک دہائی قبل 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگ صرف 8 فیصد سوشل میڈیا استعمال کرتے تھے۔ یہ تعداد ایک دہائی کے بعد 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔