اولاد کے حقوق

Published On 10 May,2024 01:02 pm

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) جس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور مخلوقات میں افضل ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح اس کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے جداگانہ ہیں، ان ذمہ داریوں میں سے اولاد کی تربیت اور حقوق بھی ہیں جس کا ادا کرنا انسان پر فرض ہے۔

جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور اولاد کی تربیت میں کوتاہی کے بداثرات سامنے آتے ہیں، بچوں کے حقوق، معاشرتی، قانونی اور انسانی حقوق کا اہم حصہ ہیں، ان کی حفاظت، تعلیم، صحت اور امن کا خصوصی خیال رکھنا ضروری ہے۔

ان کے حقوق کی تقریباً ہر معاشرہ میں قانونی و معاشرتی بنیادیں ہوتی ہیں جو بچوں کی بہتری اور ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موجود ہوتی ہیں، بچوں کے حقوق سے عہدہ برآں ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے حقوق کا ادراک نہ ہو، کچھ حقوق کا تعلق ولادت کے قبل کی زندگی سے اور کچھ کا تعلق ولادت کے بعد ہے، ذیل میں اولاد کے اہم حقوق قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کئے جاتے ہیں۔

بعداز پیدائش حقوق
بچے کی پیدائش کے بعد جو حقوق اسلام کی طرف سے ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

حق زندگی: قبل از اسلام لوگ اپنی اولاد کو معاشی تنگی اور مذہبی عقیدگی کی بناء پر معبودوں کیلئے قربان کیا کرتے تھے، قرآن وسنت نے اولاد کو حق زندگی عطا کرتے ہوئے قتل کو قانونی جرم قرار دیا، خواہ محرکات معاشی ہوں یا مذہبی، معاشی تنگدستی کی بناء پر اولاد کے قتل کو روکتے ہوئے قرآن کریم ان الفاظ میں حکم دیتا ہے: ’’تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘(بنی اسرائیل:31)۔

مشرکانہ ماحول میں مذہبی بنیادوں پر اولاد قربان کی جاتی تھی، ان غلط رسوم کی بیخ کنی اسلام نے بڑے احسن انداز سے کی، قرآن کریم ان مشرکوں کی رسوم کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’اسی طرح بہت سے مشرکوں کیلئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کو مار ڈالنا (ان کی نگاہ میں) خوش نما کر دکھایا ہے تاکہ وہ انہیں برباد کر ڈالیں اور ان کے (بچے کھچے) دین کو (بھی) ان پر مشتبہ کر دیں اور اگر (انہیں جبراً روکنا) چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے، پس آپ انہیں اور جو افترا پردازی وہ کر رہے ہیں (اسے نظرانداز کرتے ہوئے) چھوڑ دیجئے‘‘ (الانعام:137)، قرآن پاک نے قتل اولاد (خواہ کوئی بھی صورت ہو) کو حرام قرار دیا ہے اور انسان کو اولاد کی نعمت پہچاننے کا سلیقہ سکھایا ہے۔

حق پرورش: ماں باپ کی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری بچوں کی پرورش کرنا ہے، اس لئے کہ اپنی زندگی کے اوائل میں خطرات وحادثات سے اپنا دفاع کرنے اور اپنے لئے خورونوش کا اہتمام کرنے کے قابل نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو اپنے بچوں کی خوراک، بیماریوں سے بچاؤ اور حوادثات زمانہ سے محفوظ کرنے کا ذمہ دار بنایا ہے۔

قرآن مجید میں ہے: ’’صاحب وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے اور جس شخص پر اْس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اسے اللہ نے عطا فرمائی ہے، اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا‘‘(الطلاق:7)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکم بھی نگہبان ہے، رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری: 2751)۔

اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش، ضروریات زندگی، گرمی سردی سے بچاؤ، بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا اچھا اہتمام کریں۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں، رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی‘‘ (ابن ماجہ: 3670)، پرورش کے ضمن میں خوراک، لباس، صاف ستھرا ماحول، محبت وشفقت کا رویہ سب شامل ہے۔

حق رضاعت
بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جس خوراک کا محتاج ہوتا ہے اس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی صورت میں کیا، قرآن مجید میں ہے: ’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کیلئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے، اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا۔

پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھنے والا ہے‘‘ (البقرہ: 233)۔

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماں کیلئے مناسب نہیں ہے کہ وہ بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھے، دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے اور دودھ پلانے والی ماں کے قیام وطعام اور لباس کا ذمہ دارباپ ہے، والدین کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ رزق حلال سے اولاد کی پرورش کرے، ارشاد خداوندی ہے: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ:168)۔

غذا، لباس، رہن سہن میں بچوں کے مابین قانون مساوات کو اختیار کرنا اسلام کا تقاضا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی، اس وقت ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی، اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی اور پھر اٹھ کر چلی گئی، اس کے بعد نبی اکرمﷺ تشریف لائے تو میں نے آپﷺ سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔

آپﷺ نے فرمایا: جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کیلئے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔(صحیح بخاری: 5649)، پرورش میں تمام مادی ضروریات اور سہولتیں شامل ہیں جب تک بچے ضرورت مند ہیں اس وقت تک وسائل اور تحفظ مہیا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

حق انتخاب ِنام
بچوں کا اچھا نام رکھنا ان کا بنیادی حق ہے، اسلام سے قبل اہل عرب اپنے بچوں کے عجیب و غریب نام رکھتے، حضورﷺ نے ایسے نام رکھنے کو ناپسند کیا اور اچھا نام رکھنے کا حکم دیا، محمد بن احمد صالح طوسی بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)(الطفل فی الشریعۃ الاسلامیہ، ص74) ۔

حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔ ( ابو داؤد: 4948)، حضرت ابو وہب جشمیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے عبداللہ اورعبدالرحمن زیادہ پسند ہیں، سب ناموں سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں جبکہ نا مناسب نام حرب اور مرہ ہیں(ابو داؤد: 4950)۔

حق تعلیم وتربیت
بچوں کی تعلیم و تربیت، انہیں اچھا، ذمہ دار، دوسروں کی خیر خواہی کرنے والا مثالی اور باکردار مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے تربیت اولاد کے واقعہ کو بیان کیا، ان کی نصیحتیں تربیت اولاد کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

شرک سے اجتناب
حضرت لقمان نے اپنے بیٹوں کو شرک سے بچنے کی نصیحت کی، قرآن مجید میں ہے: ’’(یاد کیجئے) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے فرزند! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘(سورہ لقمان:13)

نیکی اور بدی کا تصور واضح کرنا
آپ نے اپنی اولاد کے سامنے نیکی اور بدی کا تصور واضح کیا تاکہ وہ نیک بن سکیں اور گناہوں سے بچ سکیں، قرآن مجید میں ہے: (لقمان نے کہا): اے میرے فرزند! اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو، پھر خواہ وہ کسی چٹان میں (چھْپی) ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (تب بھی) اللہ اسے (روزِ قیامت حساب کیلئے) موجود کر دے گا، بیشک اللہ باریک بین (بھی) ہے آگاہ و خبردار (بھی) ہے‘‘ (سورہ لقمان :16)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کو ہمیشہ نیکیوں کی ترغیب اور برائیوں سے ڈراتے رہنا چاہیے۔

ہمت وعظمت والے کام
’’اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں‘‘(سورہ لقمان:17)، اس آیت کریمہ میں کئی نصیحتوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، سب سے پہلے اقامت نماز کاحکم دیا یعنی اولاد کو نمازکی پابندی کروانا والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بچہ جب سات سال کا ہو جائے تواسے نماز پڑھنے کاحکم دو او رجب وہ دس سال کا ہو جائے (اور نماز نہ پڑھیں) تو اسے مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو‘‘(ابو داؤد: 495)، اسی طرح نیکی کا حکم، برائی سے منع کرنے کا شعور بھی اولاد کے اندر بیدار کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

غرور اور اکڑ سے منع کرنا
لوگوں سے باہم میل ملاپ کے وقت غرور و تکبر کا اظہار کرتے ہوئے ان سے رخ نہ پھیرنا اور زمین پر متکبرانہ چال چلن سے روکتے ہوئے حضرت لقمان نے جو اولاد کو نصیحت کی: لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘ (سورہ لقمان :18)

تربیت
بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مختلف اندازسے حضورﷺ نے احکامات صادر فرمائے، حضرت عمرو بن شعیبؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اسے مارو اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو‘‘ (ابو داؤد:495)

بچوں کے عزت واحترام کو برقرار رکھتے ہوئے ان کو آداب سکھلانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھلاؤ‘‘(ابن ماجہ:3671)، بچوں کو نظم وضبط، اچھی عادات سکھانا اور ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے، حضرت جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو ادب سکھاتاہے، یہ اس کیلئے اس کام سے بہترہے کہ وہ ہر روز ایک صاع خیرات کرے(جامع ترمذی: 1951)۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں‘‘(صحیح بخاری:4775)، اس سے واضح ہوا کہ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کھانے پینے، گفتگو کرنے، والدین اوربڑوں کی عزت وتکریم کرنے، پاکیزگی اورصفائی کاخیال رکھنے جیسے آداب سکھلانا والدین کی ذمہ داری ہے۔

حق مساوات
بچوں کے بنیادی حقوق میں سے اولاد کے مابین مساوات اورعدل قائم کرنا بھی ہے، حضرت نعمان بن بشیر ؓبیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا : میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے، فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے لو‘‘(صحیح بخاری:2446)۔

حضرت نعمان بن بشیرؓبیان کرتے ہیں: میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کر دیا تو میری والدہ نے کہا : میں اس پر تب راضی ہوں گی جب تو رسولِ خداﷺ کو اس پر گواہ لائے، میرے والد نبی کریمﷺ کے پاس گئے تو آپﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟ میرے والد نے کہا : نہیں، آپﷺ نے فرمایا : خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو، میرے والد نے وہ ہبہ واپس لے لیا(صحیح مسلم: 1632)۔

حق میراث
اسلام نے والدین کی جائیداد میں اولاد کو نہ صرف شریک کیا بلکہ ان کے حصے بھی مقرر کر دیئے تاکہ ان پر ظلم نہ ہوسکے، قرآن کریم میں ہے: اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کیلئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلئے آدھا ہے اور مورث کے ماں باپ کیلئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو۔

پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کیلئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد ہے جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوگی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے، بیشک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (النساء :11)۔

حق نکاح
والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اولاد کے بہترنکاح کیلئے مناسب اقدام کریں۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جس کے ہاں اولاد ہو تو اسے چاہیے کہ انہیں اچھے آداب سکھلائے،ان کا اچھا نام رکھیں، جب وہ بالغ ہو جائیں توان کی شادی کریں، اگر وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح نہ کیا اور اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، ج2، ص163)، لہٰذاقرآن و سنت کی روشنی میں ہر انسان پرلازم ہے کہ وہ اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔