لاہور: (دنیا الیکشن سیل) الیکشن 2018 میں دو سابق وزرائے اعظم اور ایک درجن سے زائد سابق وفاقی وزرا اور نامی گرامی سیاستدانوں سمیت بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ پاکستان تحر یک انصاف کے سونامی میں بڑے بڑے ماہر سیاسی ملاحوں کی نیا ڈوب گئی۔
ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال یکسر بدل گئی ہے، جہاں عوام نے اگلے پانچ سال کے لیے عمران خان کا انتخاب کیا ہے وہیں چند بڑے بڑے نام پارلیمینٹ سے آؤٹ ہو گئے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں عوامی سطح پر مسترد ہونے والے بڑے سیاستدان مندرجہ ذیل ہیں۔
شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 سے عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 53 اسلام آباد اور این اے 57 راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ این اے 53 میں ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان تھے جو 92,891 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ شاہد خاقان عباسی صرف 44,314 ووٹ حاصل کر سکے۔
یوسف رضا گیلانی
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 158 سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد ابراہیم خان تھے جنہوں نے 83,304 ووٹ لیکر سید یوسف رضا گیلانی کو چاروں شانے چت کیا جبکہ یوسف رضا گیلانی 74,443 ووٹ لے سکے، یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے ماضی میں چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
چودھری نثار علی خان
سابق وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی اپنی روایتی نشستوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چودھری نثار دو قومی اور دو صوبائی نشستوں سے میدان میں اترے لیکن دونوں قومی اور ایک صوبائی نشست پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ چودھری نثار 35 سال پاکستان مسلم لیگ ن سے وابستہ رہے اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ گزشتہ سال مسلم لیگ ن سے اختلافات کی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی اور الیکشن 2018 میں دوقومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اترے۔ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں این اے 59 راولپنڈی اور این اے 63 راولپنڈی میں ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان تھے جنہوں نے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے چودھری نثار کو شکست سے دوچار کیا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 59 سے تحریک انصاف کے غلام سرور خان 89,055 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے جبکہ چودھری نثار 66,369 ووٹ حاصل کر سکے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 63 سے غلام سرور خان نے 10,0986 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل چودھری نثار صرف 65767 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس سے قبل 2013 کے انتخابات میں بھی چودھری نثار کو غلام سرور خان کے ہاتھوں ہی شکست ہوئی تھی۔
میاں شہباز شریف
سابق وزیر اعلی پنجاب اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کے چار حلقوں این اے 03 سوات، این اے 192 ڈیرہ غازی خان، این اے 249 کراچی اور این اے 132 لاہور میں سے صرف ایک نشست این اے 132 لاہور سے جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کے چار حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو پولین کی راہ دکھائی اور شکست سے دوچار کیا۔ حلقہ این اے 3 سوات سے شہباز شریف صرف 22,756 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار سلیم رحمان 68,162 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 192 ڈیرہ غازی خان سے میاں شہباز شریف 67,608 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار محمد خان لغاری تھے جو 80,522 ووٹ لیکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کراچی سے شہباز شریف صرف 34,626 ووٹ لینے میں کامیاب رہے جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا تھے جو 35,344 ووٹ لیکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔لاہور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور مسلم لیگ ن لاہور میں کافی مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔ میاں محمد شہباز شریف صرف لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 سے 95,834 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چودھری منشاء سندھو صرف 49,093 ووٹ لے سکے۔
بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن 2018 سے اپنی انتخابی سیاست کا آغاز کیا اور بیک وقت قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے 200 لاڑکانہ، این اے 246 لیاری کراچی اور این اے 08 مالا کنڈ سے پاکستان پیپلزپارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلی بار میدان میں اترے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ان تین حلقوں میں سے صرف قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے 200 سے جیتنے میں کامیاب رہے جبکہ این اے 246 اور این اے 08 سے شکست ان کا مقدر بنی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 08 سے پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار ماضی میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں اس حلقہ سے بلاول بھٹو کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جنید اکبر تھے جو 81310 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری صرف 43724 ووٹ حاصل کر سکے۔ کراچی کی سیاست کی بات کی جائے تو لیاری ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا مضبوط حلقہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے ہمیشہ پیپلزپارٹی کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں، 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار شاہجہاں بلوچ کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2002 اور 2008 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار نبیل گبول کامیاب ہوئے تھے۔ حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار بلاول بھٹو زرداری تھے جن کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالشکور شاد تھے جو 52750 ووٹ لیکر فاتح قرار پائے اور بلاول بھٹو زرداری صرف 39325 ووٹ لے سکے۔ اس حلقہ سے تحریک لبیک پاکستان کے امیدوارعلامہ احمد بلال سلیم قادری تھے جنہوں نے بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، علامہ احمد بلال سلیم کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 42345 تھی۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 200 سے 84426 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مولانا راشد محمود سومرو 50200 ووٹ لے سکے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بھی دونوں حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے شکست سے دوچار کیا۔
مولانا فضل الرحمن
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی حالیہ انتخابات میں اپنی آبائی نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے دو نوں حلقوں این اے 38 اور این اے 39 ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حلقہ جمیعت علماء اسلام کا مضبوط حلقہ سمجھا جاتا رہا ہے اور مولانا فضل الرحمن ان حلقوں سے گزشتہ انتخابات میں بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انکے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کی امیدواران نے انہیں شکست سے دوچار کیا اور قومی اسمبلی کے دروازے ان کے لئے بند کر دیے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 38 میں مولانا فضل الرحمن کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی امین خان گنڈاپور تھے جنہوں نے 80236 ووٹ لیکر واضح برتری حاصل کی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ مولانا فضل الرحمن صرف 45457 ووٹ حاصل کر سکے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 39 میں مولانا فضل الرحمن کے مد مقابل تحریک انصاف کے امیدوار محمد یعقوب شیخ تھے جو 5511 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ مولانا فضل الرحمن 4076 ووٹ لیکر شکست سے دوچار ہوئے۔
سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر اور سابق صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق لوئر دیر میں اپنی آبائی نشست قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 07 سے انتخاب جیتنے میں ناکام رہے۔ دیر جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے اور ماضی کے انتخابات میں یہاں سے قومی اور صوبائی حلقوں پر جماعت اسلامی کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق خود اس حلقہ سے انتخابی میدان میں اترے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے محمد بشیر خان کا انتخاب کیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے 63017 ووٹ لیکر کامیابی سمیٹی اور سراج الحق کو شکست سے دوچار کیا جو 46040 ووٹ حاصل کر سکے۔
سید مصطفی کمال
کراچی کے سابق ناظم اور متحدہ قومی موومنٹ کے ناراض رہنماء سید مصطفی کمال نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی الگ جماعت پاک سر زمین پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ پاک سر زمین پارٹی نے قلیل عرصے میں مقبولیت حاصل کی اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور متحدہ قومی موومنٹ کے بہت سے رہنماؤں نے مصطفی کمال سے ہاتھ ملایا اور نومولود پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ حالیہ انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی نے کراچی سمیت سندھ کے متعدد حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ پارٹی سربراہ مصطفی کمال بھی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 253 سے انتخابی میدان میں اترے تو ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار اسامہ قادری اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد اشرف جبار نے الیکشن لڑا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اسامہ قادری 52426 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے اشرف جبار 39145 ووٹ لیکر دوسرے اور تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار محمد امجد علی 24724 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے جبکہ کراچی کو فتح کرنے کے دعوے کرنے والے مصطفی کمال 12821 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے۔ اس کے علاوہ مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا کوئی بھی امیدوار قابل ذکر کارگردگی دکھانے میں ناکام رہا اور انکے حصے میں ایک بھی نشست نا آ سکی۔
محمود خان اچکزئی
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بلوچستان کی سیاست کا اہم حصہ گردانے جاتے ہیں لیکن حالیہ انتخابات میں وہ بھی اپنی نشست نا بچا سکے اور انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے۔ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263 قلعہ عبداللہ سے انتخابی میدان میں اترے تو ان کے مدمقابل متحدہ مجلس عمل کے صلاح الدین اور عوامی نیشنل پارٹی کے اصغر خان تھے۔ حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے ایم ایم اے کے امیدوار صلاح الدین 37971 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ اے این پی کے امیدوار اصغر خان 21417 ووٹ لے کر دوسرے اور محمود خان اچکزئی 19989 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ نہ صرف محمود خان شکست سے دوچار ہوئے بلکہ ان کی پارٹی بھی قومی اسمبلی کی کوئی بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔
اسفند یار ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے انتخاب میں شکست سے دوچار ہوئے۔ اسفندیار ولی اس سے پہلے بھی 2013 کے انتخاب میں ناکام ہوگئے تھے۔ اسفندیار ولی چارسدہ کے حلقہ این اے 24 سے تحریک انصاف کے فضل محمد خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ اسفندیار ولی نے 59483 ووٹ حاصل کیے جبکہ انکے مد مقابل فضل محمد خان 83495 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے۔ تاہم اسفندیار ولی نے انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
آفتاب خان شیرپاو
سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب خان شیرپاو چارسدہ میں اپنی آبائی نشست حلقہ این اے 23 میں شکست کھا بیٹھے۔ ان کو چت کرنے والے تحریک انصاف کے انور تاج ہیں جنہوں نے 59371 ووٹ حاصل کیے۔ آفتاب خان شیرپاو 33567 ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔ دوسرے نمبر پر متحدہ مجلس عمل کے حاجی ظفر خان تھے جنہوں نے 41391 ووٹ حاصل کیے۔
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی اپنی نشست کا دفاع نا کر سکے اورکانٹے دار مقابلے کے بعد سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ سعد رفیق نے عمران خان کے 84,313 ووٹوں کے مقابلے میں 83,633 ووٹ حاصل کیے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد سعد رفیق نے اپنے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں دوبارہ گنتی کی درخواست کر دی ہے۔ سعد رفیق گزشتہ 3 ادوار میں قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے آ رہے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں ہوں گے۔ سعد رفیق لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 168 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار منتخب ہوئے ہیں اور شنید ہے کہ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کی صورت میں وہ اپوزیشن لیڈر ہو سکتے ہیں۔
عابد شیر علی
سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیرعلی فیصل آباد کے حلقہ این اے 108 سے تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل ان کے والد چوہدری شیر علی بھی اسی علاقے سے متعدد مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد میں یہ نشست انکی آبائی نشست تصور کی جاتی تھی لیکن حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے نوجوان رہنما فرخ حبیب کے ہاتھوں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں امیدواران کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آیا اور دونوں امیدواران نے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔ عابد شیر علی نے 111,529 ووٹ حاصل کیے جبکہ انکے مد مقابل کامیاب امیدوار نے 112740 ووٹ حاصل کیے۔
فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ کے سابق پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے دو حلقوں این اے 245 اور این اے 247 سے میدان میں اترے لیکن دونوں نشستوں سے کامیاب نا ہو سکے۔ این اے 245 میں انکے مد مقابل انکے سابق حلیف اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عامر لیاقت اس مرتبہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے اور ڈاکٹر فاروق ستار کو پچھاڑ دیا۔ این اے 245 میں ڈاکٹر عامر لیاقت نے 56664 ووٹ حاصل کیے جبکہ مدمقابل فاروق ستار 35429 ووٹ کر سکے۔ اسی طرح این اے 247 میں بھی فاروق ستار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس حلقے میں بھی انکو شکست سے دوچار کرنے والی جماعت تحریک انصاف ہی ہے جس کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے فاروق ستار کے 24146 ووٹوں کے مقابلے میں 91020 ووٹ حاصل کیے اور کامیاب قرار پائے۔ ڈاکٹر فاروق ستار گزشتہ 3 ادوار سے قومی اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے بطور پارلیمانی لیڈر زمہ داریاں انجام دیتے رہے لیکن اس مرتبہ وجود میں آنے والے ایوان کا وہ حصہ نہیں ہوں گے۔