مولانا فضل الرحمن کی مہم جوئی ناقابل فہم

Last Updated On 28 July,2018 09:37 am

لاہور: (تجزیہ: ہارون الرشید) عمران خان کی حکومت کا پہیہ جام کرنے کے لیے بھرپور اور ملک گیر ایجی ٹیشن ہو گا یا نہیں؟ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کیا اپوزیشن پارٹیاں منتخب ارکان کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں داخل ہونے سے روک سکیں گی؟ اس صورتحال میں دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنا سکے گی؟

کل جماعتی کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اعلان بہت گھن گرج کے ساتھ کیا۔ مگر دونوں بڑی پارٹیاں فی الحال تذبذب کا شکار ہیں۔ فیصلہ کرنے کے لیے نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے دو دن کی مہلت مانگی ہے۔ پیپلز پارٹی اس اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئی۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام ’’کامران خان کے ساتھ‘‘ میں خواجہ آصف نے کہا کہ وہ ایجی ٹیشن میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔

مولانا فضل الرحمن سمیت احتجاج کا اعلان کرنے والے رہنماؤں کی بدن بولی میں اعتماد کا فقدان تھا۔ وہ بجھے بجھے نظر آئے بلکہ پژمردگی ، ڈپریشن کا شکار۔ با خبر ذرائع کے مطابق، کانفرنس میں فاروق ستار کا کہنا یہ تھا کہ صرف ایسی صورت میں وہ شریک ہوں گے اگر تمام جماعتیں اتفاق رائے سے فیصلہ کریں۔ جماعت اسلامی بھی ایسے شدید احتجاج کے حق میں نہیں، جو حکومت کو جام کر کے رکھ دے۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جماعت اسلامی کے ایک مرکزی رہنما نے کہا :غیر معمولی احتجاج کا اعلان ضرور ہو گا، لیکن عمل درآمد نہیں۔ اپوزیشن کو زندہ اور متحد رکھنے کے لیے یہ محض ایک سیاسی چال ہو گی۔ پارٹی کے ایک اور رہنما امیر العظیم نے تو عمران خان کو مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں انہوں نے لکھا: 23 سالہ محنت پر خان کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی، اگرچہ اس پر انہیں اپنی جماعت میں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اسفند یار ولی خان نے کہا کہ نہ صرف حلف اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے بلکہ بڑے شہروں میں زندگی معطل کر دینی چاہئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پشاور اور کراچی کو وہ بند کر سکتے ہیں۔ باقی شہروں کی ذمہ داری، دوسری پارٹیوں کو اٹھانی چاہئے۔ مگر اس کے فوراً بعد انہوں نے یہ معنی خیز جملہ بھی کہا   دوسری صورت یہ ہے کہ ہم مضبوط اپوزیشن کریں ۔

مولانا فضل الرحمن اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بھی حلف نہ اٹھانے کی تجویز پر صاد کیا۔ سب سے زیادہ پر جوش مولانا فضل الرحمن تھے لیکن اگر جماعت اسلامی نے ساتھ نہ دیا تو نتیجہ ظاہر ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا ہم نے تاخیر کر دی۔ ہمیں الیکشن سے پہلے مل بیٹھنا چاہئے تھا یعنی عمران خان کے تمام مخالفین کو ان کے اس جملے کی ساخت میں چھپی ہوئی مایوسی آشکار ہے۔

1977 کے سوا ، کسی حکومت کے آغاز میں ایک ہمہ گیر ایجی ٹیشن کبھی کامیاب نہیں رہی۔ مگر اس میں تو 323 سیاسی کارکن قتل ہوئے تھے اور 50 ہزار جیلوں میں پڑے تھے۔ عمران خان کا دھرنا ایک برس گزرنے کے بعد شروع ہوا۔ پھر بھی ناکام رہا، حالانکہ اسے پانچ اہم شخصیتوں کی تائید حاصل تھی اور ایک ادارے کے سربراہ کی بھی۔ اس لیے کہ عوام کی اکثریت نواز شریف کو مہلت دینے کے حق میں تھی۔

طاہر القادری اور ان کے پر جوش کارکنوں کی ’’سرفروشی‘‘ کے باوجود، یہ مہم ناکام رہی۔ الیکشن کے فوراً بعد، ایسے ماحول میں ایجی ٹیشن کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے کہ اسٹیبلشنٹ کی ترجیحات سے فاتح سیاسی پارٹی ہم آہنگ ہے۔ اب تک نون لیگ کا جو ردِّ عمل سامنے آیا ہے، اس سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ کسی بڑے ہنگامے کے حق میں نہیں بلکہ ذہنی طور پر پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک طویل اننگ کھیلنا چاہتی ہے ، چند روزہ میچ نہیں۔

جذباتی طور پر غیر متوازن سمجھے جانے والے اسفند یار ولی خان کا انداز فکر قابل فہم ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور آفتاب شیر پاؤ مہم جوئی کے لیے کیوں آمادہ ہیں، یہ قابل فہم نہیں۔ باقی لیڈر شاملِ باجا لگتے ہیں۔ محمود اچکزئی پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کر چکے۔ چوہدری سرور، جہانگیر ترین اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ہار جانے والے شاہ محمود قریشی کے کھیل سے نکل جانے کے بعد، علیم خان وزارت اعلیٰ کے سنجیدہ امیدوار ہیں۔ پارٹی کے ترجمان فواد چوہدری بھی یہ خواہش ظاہر کر چکے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق دونوں امیدواروں کو کوئی خاص حمایت حاصل نہیں ، حالانکہ علیم خان، عمران خان کے کافی قریب ہیں۔ پارٹی کے لیے انہوں نے بے پناہ جدوجہد کی ہے۔ بے حد یکسوئی سے کام کیا اور ایثار بھی۔ شاید اس کی بڑی وجہ علیم خان کے خلاف نیب کی تحقیقات ہیں۔ مزید برآں ان کے قریبی ساتھی شعیب صدیقی پر ٹکٹوں کی تقسیم میں بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ ان کی وجہ سے علیم خان پر بھی اعتراضات ہوئے ہیں، اگرچہ براہِ راست ان کے بارے میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے۔

بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے حلیف پرویز الٰہی بھی امیدوار ہیں۔ مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ پوری پارٹی کو نظر انداز کر کے، محض اس لیے انہیں یہ اہم منصب سونپ دیا جائے کہ وہ وزارت اعلیٰ اور جوڑ توڑ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو قاف لیگ فروغ پذیر ہو گی، تحریک انصاف نہیں۔ آزاد امیدوار اس کا رخ کریں گے اور پنجاب کی حد تک اسٹیبلشمنٹ کو اس پر انحصار کرنا ہو گا۔ کیا یہ ممکنہ صورتحال پیچیدگیاں پیدا نہ کرے گی؟

مستند ذرائع سے اب تک صرف اٹک کے میجر طاہر صادق کا نام سامنے آیا ہے ، جو چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی رشتے دار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ قابل قبول ہیں۔ ان کی تائید کرنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ دو بار وہ ضلعی ناظم رہ چکے ہیں اور مالی معاملات میں قابل اعتبار ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن اور روزنامہ دنیا کے کالم نگار ایاز امیر نے دنیا ٹی وی کے پروگرام ’’تھنک ٹینک ‘‘ میں یہ کہا کہ طاہر صادق سیاست کا غیر معمولی فہم رکھتے ہیں۔

پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو یقینی سمجھا جا رہا ہے ۔ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں نون لیگ کو تھوڑی سی عددی برتری بھی حاصل ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ یقینی ہے اور سیاست دانوں کی اکثریت وقت کے دھارے کا ساتھ دیتی ہے۔ با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس میں نون لیگ نے شہروں میں زندگی معطل کرنے کی مخالفت کی۔ ان ذرائع کے مطابق شریف خاندان، سودے بازی کے امکان سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ اس کا اندازہ ہے کہ آئندہ چند روز میں مریم نواز ضمانت پر رہا ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ وہ مرکزی ملزم نہیں۔

مزید برآں عدالتیں خواتین کے بارے میں اکثر نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔ ان کے بروئے کار آنے کی صورت میں نون لیگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے میں کامیاب رہے گی۔ نون لیگ کا میڈیا سیل، سوشل میڈیا پر اپنی مہم تیز کر کے حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکے گا۔ پروردہ اخبار نویسوں اور بعض میڈیا گروپوں سے بھی وہ تائید کی توقع رکھتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کو بھارت کے علاوہ بھی بعض غیر ملکی طاقتوں کی آشیر باد حاصل ہے۔ ان کے مطابق پاکستان آرمی ان طاقتوں کا جتنا ہدف ہے ،اتنا ہی میاں محمد نواز شریف کا بھی۔ ایجی ٹیشن یا اسمبلیوں کے مقاطعے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار عمران خان کے ردّ عمل پر بھی ہو گا۔ حکومت کی تشکیل ناگزیر ہے۔ عمران خان سیاسی انتقام سے گریز کریں، تحمل کا مظاہرہ کریں اور قانون کی حدود میں رہ کر نواز شریف کو تمام سہولتیں مہیا کریں تو مخالفت کی لہر کند ہو سکتی ہے۔

نون لیگ کے ساتھ سودے بازی کا بظاہر کوئی امکان نہیں، کم از کم اس وقت تو بالکل نہیں۔ ان کے طرزِ عمل میں ذاتی انتقام کی ایک ذرا سی جھلک بھی نہیں ہونی چاہئے۔ شریف خاندان کے احتساب کو قومی اداروں پہ چھوڑ دینا چاہئے، حتیٰ الامکان اس سلسلے میں، بیان بازی سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ ابتدائی دنوں کی حکومتی کارکردگی بھی، صورتِ حال پہ اثر انداز ہوگی۔ اگر وہ یہ تاثر پیدا کر سکے کہ قومی خدمت کے لیے سنجیدہ ہیں تو عوام کی اکثریت ایجی ٹیشن سے دور رہے گی۔

اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو بتدریج حکومت مخالف جذبات کو تقویت ملے گی۔ ارکان کو ایوانوں میں داخلے سے روکنے کے لیے، مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپوزیشن کیا تشدد کا راستہ اختیار کرے گی؟ یہ بات کسی طرح قابل فہم نہیں۔ اس لئے کہ ایسی کوئی کوشش شدید جوابی ردّ عمل، اور نتیجے میں ہمہ گیر فساد کو جنم دے سکتی ہے۔