پاکستانی عابد حسین "پک اینڈ ڈراپ" سے سلیس عربی شاعری تک

Last Updated On 16 September,2018 02:54 pm

ریاض (نیٹ نیوز ) سعودی عرب میں مقیم پاکستانی عابد حسین نے پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور کے طور پر مملکت میں کئی برس تک کام کیا جہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ میل جول کے دوران سعودی قبائلی لہجے سے بہت متاثر ہوئے۔

یہاں تک کہ عابد کے اندر عربوں کی "عوامی شاعری" سے محبّت کا آتش فشاں باہر آ گیا اور ان کی زبان پر اس نوعیت کے اشعار کا ذخیرہ رواں ہو گیا۔ عابد حسین نے بتایا کہ "میری پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی اور میں نے الغاط شہر میں پرورش پائی۔ بچپن میں اپنے وطن چلا گیا اور وہاں 5 برس گزارنے کے بعد واپس سعودی عرب آ گیا اور پھر مستقل طور پر یہاں مُقیم ہو گیا"۔

سعودی مقامی لباس میں ملبوس عابد کے مطابق اُنہوں نے اپنے ڈرائیونگ کے پیشے میں کام کرنے کے علاوہ سعودی لہجے میں مہارت حاصل کی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر قصیدے بھی یاد کر لیے۔ عابد کا کہنا ہے کہ "میں جب قصیدے سنتا ہوں تو وہ مجھے بہت پسند آتے ہیں اور میں انہیں یاد کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں،

اگرچہ میرے رشتے دار مجھ پر غصّہ ہوتے ہیں کیوں کہ میں ان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔ میرے والد مدینہ منورہ میں کاشت کار کے طور پر کام کرتے تھے اور میرے گھر کے تمام افراد پاکستانی شہریت رکھتے ہیں۔
عابد نے بتایا کہ میں بڑے ٹرکوں کے ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہوں۔ میں نے ڈاٹسن کا قصیدہ لکھ کر اس کے ساتھ شاعر الملیون نامی پروگرام میں شرکت کی اور اس پروگرام تک اپنی آواز پہنچائی۔ پروگرام کی جیوری میرے سعودی لہجے سے کافی متاثر ہوئی۔

قصیدہ گوئی کے سفر کے آغاز کے حوالے سے عابد کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا ڈرائیوروں کے ساتھ بیٹھک لگانے اور اشعار و قصیدوں کے تبادلے کے نتیجے میں ہوئی۔ ان بیٹھکوں نے مجھے سعودی عوامی شاعری کا دیوانہ بنا دیا اور میں انہیں یاد کرنے لگا۔ میں ان قصیدوں کو اسی لہجے میں پڑھتا ہوں۔ ہائی ویز پر سفر کے دوران میں قصیدے سنتا رہتا ہوں۔ محمد السدیری میرے بہت زیادہ قریب ہیں اور میں نے ان کے بہت سے قصیدے یاد کر رکھے ہیں"۔

عابد حسین اس وقت دارالحکومت ریاض کے شمال میں واقع شہر الغاط میں رہتے ہیں۔ ان کے شمر، المرہ، قحطان، مطیر اور دیگر سعودی قبائل کی شخصیات کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات بھی ہیں۔