لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت نئے بلدیاتی نظام کی جانب گامزن ہے، وزیراعظم عمران خان نے دورہ لاہور کے دوران ہدایت کی کہ بلدیاتی نظام کو 48 گھنٹے میں حتمی شکل دی جائے، حکومت کے مجوزہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں اختیارات کو نچلی سطح تک لے جانا حکومت کا اولین ایجنڈا ہے اور عوامی نمائندوں کے موثر احتساب کی بات بھی کی جا رہی ہے، اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا مجوزہ بلدیاتی نظام کیا ہے ؟ کیا حکومت اس حوالے سے قانون سازی کر سکے گی ؟ اور موجودہ بلدیاتی نظام کا مستقبل کیا ہو گا؟۔
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں جمہوری نظام اس لئے موثر اور فعال رہتا ہے کہ وہاں بنیادی جمہوریت کے ان اداروں کو بہت زیادہ با اختیار اور موثر بنایا جاتا ہے، جن کی کارکردگی بھی مثالی ہوتی ہے، پاکستان کا بڑا سیاسی المیہ یہ رہا کہ یہاں سیاسی جماعتیں ان اداروں کی مضبوطی کے دعوے، بیانات، اعلانات اور اپنی اپنی جماعت کے منشور میں تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر انہیں با اختیار اور مضبوط بنانے کیلئے تیار نہیں، آئین کا آرٹیکل 140 اے ان اداروں کی مالی، سیاسی اور انتظامی خود مختاری کی بات کرتا ہے ، سیاسی جماعتوں کا ریکارڈ اس حوالے سے اچھا نہیں، البتہ آمریت کے دوران سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر اثر انداز ہونے کیلئے پارلیمنٹ کے بجائے ان اداروں کو وجود میں لایا جاتا ہے اور کسی حد تک انہیں با اختیار بھی کیا جاتا ہے تا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں عوام کا رد عمل آمرانہ حکومتوں کے خلاف نہ ہو اور ان اداروں کو بطور لیور استعمال کیا جا سکے، میثاق جمہوریت میں بھی موثر بلدیاتی نظام اور ان کے ارکان کو با اختیار بنانے کی بات ہوئی مگر پانچ پانچ سال تک بر سر اقتدار رہنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اوّل تو ان کے انتخابات نہ کرائے اور اگر الیکشن کرانے کی ضرورت پیش آئی تو عملاً ان کو بے اختیار ہی رکھا گیا۔ کسی حد تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے ان اداروں کو فعال کیا اورسالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے 30 فیصد فنڈز ان کیلئے مختص کئے، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کسی حد تک ان اداروں کا کردار بھی ان کی بڑی فتح کا باعث بنا۔
جہاں تک پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے عزم کا سوال ہے تو زمینی حقائق یہ ہیں کہ انہوں نے جن پر تکیہ کیا ہے ابھی تک ان کی جانب سے اس پر سنجیدگی ظاہر نہیں کی جا رہی، مجوزہ بلد یاتی نظام کے حوالے سے اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے بننے والی کمیٹی نے ابھی تک مذاکرات کی ابتدا نہیں کی اور خود تحریک انصاف کے اندر بھی یکسوئی نہیں کہ خیبر پختونخوا میں رائج ویلج کونسل کا تجربہ آزمانا ہے یا جنرل (ر) پرویز مشرف کے ضلعی حکومتوں کے نظام کو اپنانا ہے، یا رائج بلدیاتی نظام کے کچھ نکات کو ساتھ شامل کرنا ہے، ابھی تک اس حوالے سے خود حکومتی وزرا حتمی رائے دینے سے گریز کرتے نظر آ رہے ہیں ، اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا نہ سول سوسائٹی یا بلدیاتی امور کے ماہرین سے کسی سطح پر رہنمائی لی گئی ہے، لگتا ہے جمہوری بلدیاتی نظام کے حوالے سے بیورو کریسی پر ہی انحصار کیا جا رہا ہے لیکن بیورو کریسی کوئی ایسا قابل عمل اور مقابل نظام نہیں بنائے گی جس کے نتیجہ میں حقیقی معنوں میں یہ ادارے با اختیار اور مضبوط ہوں اور ان اداروں کے ارکان کا کوئی مؤثر کردار سامنے آ سکے۔
مجوزہ مقامی حکومتوں کا نظام ایک سنجیدہ عمل ہے، یہ ہدایات اور اعلانات کا پابند نہیں اس کیلئے سنجیدہ کوشش اور کاوش ہونی چاہیے، یہ کام کسی عجلت میں ہونے والا نہیں، عمل اور موجودہ بلدیاتی نظام کے خاتمہ میں جلدی خود انہیں کسی نئی مشکل سے ہمکنار نہ کر دے کیونکہ یہ نظام اتنا موثر بننا چاہیے کہ عدالت میں چیلنج بھی کر دیا جائے تو اس کی ساکھ پر اثر نہ پڑے، جس کیلئے مجوزہ نظام پر صوبائی اسمبلی کی سطح پر ضرور بحث ہونا چاہیے اور اپوزیشن کی جانب سے بھی اگر اچھی تجاویز آتی ہیں تو انہیں ضرور شامل کیا جائے کیونکہ مجوزہ نظام تحریک انصاف کیلئے نہیں پنجاب کیلئے بننا ہے، یہ کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں یہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک ایسے نظام کے قیام کا عمل ہے جس کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی سطح پر اثرات ہوں گے، یہ نظام ہر ایک شخص کے مسائل اور مشکلات کے ازالہ کیلئے ہے اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہی کہا جاتا ہے کہ اگر مقامی سطح پر نظام کی بنیاد جمہوری اور شفافیت پر مبنی نہیں تو اوپر کی سطح کا نظام بھی اپنی افادیت کھو دیتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت، جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کے مضبوط کردار کی بات تو کی جاتی ہے مگر ہم مقامی نظام کی حکمرانی میں بہت پیچھے ہیں اور اس کی وجہ واضح ہے کہ ملک کی سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقوں میں مقامی حکومتیں ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں اور وہ اسے خود اپنے اختیارات پر قدغن سمجھتے ہیں اور خود ارکان اسمبلی بھی نہیں چاہتے کہ یہ ادارے مضبوط ہوں۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر جمہوری نظام میں ایک لاکھ سے زائد منتخب ارکان با اختیار ہو کر اس کا حصہ بن جائیں تو پاکستان میں کبھی جمہوریت اور جمہوری نظام پر آنچ نہ آئے، اس لئے اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے یقیناً وہ اچھا اور فعال بلدیاتی نظام چاہتے ہیں لیکن یہ کام عجلت میں کرنے کے بجائے اس پر سنجیدگی درکار ہے، یہ نظام گھنٹوں میں وجود میں آنے والا نہیں، اس کیلئے دنوں کی عرق ریزی کی ضرورت ہے اور اس نظام کی قانونی حیثیت کیلئے وہ تمام آپشن بروئے کار لائے جائیں جو اس کیلئے ضروری ہیں، اگر تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں ایک اچھا، مؤثر اور مضبوط بلدیاتی نظام لانے میں کامیاب رہی تو جمہوریت کی ایک بڑی خدمت کرنے کے ساتھ خود آنے والے حالات اور انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو یقینی بنانے کا باعث ہو گا۔