ڈینٹسٹ سے صدر پاکستان کا سفر

Last Updated On 05 September,2018 09:34 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا ) عارف علوی کے جسم میں ایک گولی آج بھی پیوست ہے جو ایوب خان کی آمریت کے دنوں میں احتجاج کے دوران انھیں لگی تھی۔ وہ ان دنوں مولانا مودودی کے فکر کے پیروکار تھے جو پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کا نظریہ رکھتے تھے۔ یہ 1969 کی بات ہے جب عارف علوی ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف مال روڈ پر احتجاج کر رہے تھے۔ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ڈینٹل کالج میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ طلبہ یونین کے صدر بھی تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں جمہوریت کی بحالی کی اس تحریک میں دو گولیاں لگیں جن میں سے ایک آج بھی ان کے جسم میں موجود ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی کی پیدائش کراچی میں ڈاکٹر حبیب الرحمان علوی کے گھرانے میں ہوئی۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ڈاکٹر علوی کا گھرانہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد انڈیا میں ڈینٹسٹ تھے جو قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ان کے والد جواہر لال نہرو کے بھی ڈاکٹر تھے اور ان کی نہرو سے خط و کتابت ان کے پاس موجود ہے جبکہ فاطمہ جناح نے انھیں مہتاپیلس کا ٹرسٹی مقرر کیا تھا۔ عارف علوی نے طالب علمی کے زمانے میں سیاست کے بعد 1979 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا وہ جماعت اسلامی کے امیدوار تھے لیکن یہ انتخابات نہ ہو سکے اور ملک میں جنرل ضیا الحق کی آمریت آ گئی جس کے بعد وہ اپنے پیشے کی جانب آ گئے۔ اسی دوران انھوں نے امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر بنے اس کے بعد ایشیا پیسفک ڈینٹل فیڈریشن کے صدر کے منصب تک پہنچے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جماعت اسلامی سے دور ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ’وہ گٹر اور پانی کا مسئلہ بھی اسلامی نظام لینے کے بعد ٹھیک کرنے کی بات کرتے تھے، عارف علوی نوجوانی میں سکواش اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ دیگر کئی لوگوں کی طرح وہ عمران خان سے متاثر تھے۔ 1996 میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو عارف علوی بھی اس کی تنظیم سازی کا حصہ رہے۔ وہ پارٹی کے نئے پاکستان کے منشور کے مصنفوں میں بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کا سیاسی سفر صوبائی صدر سے شروع ہوا۔ انھیں 1997 میں سندھ کا صدر بنایا گیا۔ 2001 میں وہ مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2006 میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنائے گئے اور 2013 تک اس عہدے پر رہے ۔ یہی وہ دور ہے جب تحریک انصاف مینار پاکستان پر جلسہ عام کے بعد تبدیلی کا نعرہ لگا کر پورے ملک میں پھیل گئی۔ انھوں نے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر پہلا الیکشن 1997 میں کراچی کی امیر آبادی کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن پر مشتمل صوبائی حلقے سے لڑا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

2002 کے انتخابات میں انھوں نے بلدیہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزمائی کی لیکن انھیں شکست ہوئی۔ 2013 کے عام انتخابات میں وہ ڈیفنس، کلفٹن اور صدر کے علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 250 سے مقابلے میں آئے۔ ابتدائی نتائج میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو کامیاب قرار دیا گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اورعارف علوی نے حلقے کے لوگوں کو متحرک کیا اور ڈٹ گئے۔ تین تلوار پر ایک ایسے ہی احتجاج کے دوران ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازعہ تقریر سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ کارکنوں کو حکم دیں تو وہ اس برگر کلاس کے تلواروں سے ٹکڑے کر دیں گے۔ عارف علوی کا احتجاج رنگ لایا اور الیکشن کمیشن نے 45 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ ووٹنگ کا حکم جاری کیا اور نتیجے میں عارف علوی مجموعی طور پر 76 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔

عارف علوی کا حلقہ ایک ایسا حلقہ ہے جس میں شہر کے امیر ترین لوگ بھی رہتے ہیں تو غریب ترین لوگوں کی بستیاں بھی موجود ہیں۔انھوں نے جماعت اسلامی کی تربیت اور طریقے اختیار کرتے ہوئے اپنے طور پر حلقے میں فلاح و بہبود کے کام شروع کر دئیے جس میں وہ ریلوے سکول کی عمارت کی تعمیر کو کارنامہ قرار دیتے ہیں جس میں پہلے 300 بچے زیر تعلیم تھے اور اب 1300 بچے موجود ہیں۔ اسی طرح غریب آبادیوں میں 12 فلٹریشن پلانٹس اور سکولوں میں یونیفارم کی تقسیم بھی شامل ہے۔ عارف علوی نے عوامی انداز اپنانے کی بھی کوشش کی۔ وہ بارشوں کے دنوں میں غریب بستیوں میں لوگوں کی مدد کے لیے کشتی لے کر پہنچ جاتے۔ چند سال قبل ایک فٹ پانی میں ان کی کشتی کے ساتھ تصویر پر انھیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح انتخابی مہم کے دوران وہ موٹر سائیکل اور آٹو رکشہ پر بھی سواری کرتے نظر آئے۔ وہ تحریک انصاف کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا یعنی ٹوئٹر اور فیس بک پر سرگرم ہیں، اس کے علاوہ عارف علوی ٹیتھ میسٹرو کے نام سے بلاگ بھی لکھتے رہے ہیں۔
 

Advertisement